کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 651
بھی یہی پریشانی ہے، قاتلین عثمان ان کی لشکر میں پائے جاتے ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۹۹۶) جنگ بھڑک گئی ۱۔ جنگ بھڑکانے میں سبائیوں کا کردار: آپ کو معلوم ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں وہ خوارج اور سرکش موجود تھے جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، لیکن ان کے خلاف کارروائی ممکن نہ تھی کیونکہ فوج میں انھیں نامزد کرنا مشکل تھا، یا ان کے قبیلہ کے مدد گار موجود تھے، یا ان کے خلاف کوئی واضح دلیل نہ تھی، یا وہ منافق تھے اور نفاق کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔[1]یہ لوگ ابن سبا کی پیروکار تھے، ان لوگوں نے جب علی رضی اللہ عنہ کا یہ اعلان سنا تو اشتعال انگیزی اور فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے، تاکہ قصاص کی تلوار سے محفوظ ہوجائیں ۔[2] چنانچہ جب دونوں فوجوں نے قریب قریب پڑاؤ ڈال دیا اور سب اپنی جگہوں پر مطمئن ہوگئے، تو ایک طرف سے علی اور دوسری طرف سے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین نکل کر باہر آئے، ایک دوسرے سے ملے اور اپنے نزاعی مسئلہ کے بارے میں گفتگو کیا، بالآخر حالات کو سدھرتے دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ صلح اور جنگ بندی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، پھر اسی پر وہ سب الگ الگ ہوگئے، علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج میں لوٹ آئے اور طلحہ و زبیر اپنی فوج میں لوٹ گئے، طلحہ اور زبیر نے اپنے سرداروں کو بلالیا اور علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کو چھوڑ کر اپنے سرداروں کو بلالیا، شام ہوگئی اور صلح و عافیت کی نیت سے سب نے رات گزار ی، دونوں فوجوں کے افراد ایک دوسرے کے قریب قریب تھے، ایک دوسرے سے ملتے تھے اور صرف صلح کی نیت سے رات گزار رہے تھے۔ لیکن فتنہ کی آگ لگانے والوں نے آج جس طرح رات گزاری تھی شاید ایسی منحوس اور بری رات انھوں نے کبھی نہ گزاری رہی ہو، انھیں اپنی بربادی کا غم ستار ہا تھا، پوری رات مشورہ کرتے رہے، ان میں سے کسی نے کہا: طلحہ اور زبیر کے ارادوں سے تو ہم خوب واقف ہیں ، لیکن علی کے ارادوں سے آج تک واقف نہ ہوسکے۔یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب آپ نے تمام لوگوں کو کل کے دن کوچ کرنے کو کہا اور یہ شرط لگادی کہ جس نے کسی بھی طرح عثمان کے قتل میں شرکت کی ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ چلے، اللہ کی قسم! مجھے لگ رہاہے کہ ان سب لوگوں کی ہمارے بارے میں ایک ہی رائے ہے، اگر انھوں نے علی سے کسی چیز پر صلح کرلی تو وہ صلح ہمارے خونوں پر ہوگی۔[3] ان کے مشیر خاص ابن السوداء یعنی عبداللہ بن سبا نے کہا: اے لوگو! تمھاری بہتری اس میں ہے کہ تم ان لوگوں
[1] تاریخ الطبری (۵؍۵۲۶)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍۵۲۷) تحقیق موافق الصحابۃ (۲؍۱۲۰)۔ [3] تاریخ الطبری (۵؍۵۲۶)۔