کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 650
سے صلح کی کوشش میں رہے، لیکن بالآخر ساری محنت ناکام ثابت ہوئی اور جنگ جمل کے دوران دونوں فریقوں کو جنگ بندی اور کتاب الٰہی کی ثالثی کی طرف دعو ت دیتے ہوئے قتل کردیے گئے۔[1]
قعقاع بن عمرو التمیمي رضی اللہ عنہ : …امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمر التمیمی کو طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ صلح کی مہم پر بھیجا اور کہا: ان دونوں آدمیوں سے ملو، انھیں اتحاد اور باہمی الفت کی دعوت دو، اختلاف وانتشار کا گناہ اور اس کے نقصانات بتاؤ۔ چنانچہ قعقاع بصرہ کے لیے روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اور کہا: اے اماں جان! آپ بصرہ کس لیے آئی ہیں ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے عزیز! لوگوں میں صلح و مصالحت کی خاطر۔ قعقاع نے کہا: آپ طلحہ اور زبیر کو بھی بلوالیں تاکہ آپ کی موجودگی میں اور آپ کے سامنے ان سے گفتگو کروں ۔
قعقاع رضی اللہ عنہ کي طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سے گفتگو: …پھر جب وہ دونوں آگئے، تو قعقاع رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے بصرہ آمد کا مقصد پوچھا، ان لوگوں نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا جیسا جواب دیا، یعنی ہم اصلاح کی خاطر آئے ہیں ، قعقاع نے کہا: آپ ہی لوگ بتائیں کہ اصلاح کی کیا شکل ہوسکتی ہے ؟ اللہ کی قسم! اگر ہم اسے بہتر سمجھیں گے، تو ضرور قبول فرمائیں گے اور اگر غلط سمجھیں گے تو اس سے احتراز کریں گے، ان دونوں نے کہا کہ: قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا ضروری ہے، اگر وہ بلاقصاص چھوڑ دیے گئے تو گویا قرآن کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے احکام کو ناکارہ بنا دیا گیا اور اگر قصاص لیا جاتا ہے تو اس میں قرآنی حکم کا احیاء ہے۔
قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا: بصرہ میں چھ سو قاتلین عثمان تھے جنھیں تم نے قتل کیا، ان میں صرف ایک شخص حرقوص بن زہیر السعدی بچ نکلا اور اپنی قوم بنو سعد میں پناہ لے لیا، جب آپ لوگوں نے اسے ان سے چھیننا اور قتل کرنا چاہا تو اس کی قوم نے آپ لوگوں کو اس سے روک دیا، اورنتیجہ یہ ہوا کہ چھ ہزار لوگ غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے تمھارا ساتھ چھوڑ دیا اور تمھارے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے، اب اگر آپ لوگ حرقوص کو چھوڑ دیتے ہو اور اسے قتل نہیں کرتے تو اپنی بات، اپنا دعویٰ اور جس چیز کا علی سے مطالبہ کر رہے ہو سب کی مخالفت کررہے ہو، اگر آپ لوگ حرقوص کو گرفتار کرنے کے لیے بنو سعد سے لڑرہے ہو تو وہ تم پر غالب آجائیں گے، تمھیں شکست دیں گے اور سب کے سب تم پر ٹوٹ پڑیں گے۔
پھر جس چیز سے آپ لوگ ڈر رہے ہو، اسی میں پڑجاؤ گے، ان کو مضبوط کردو گے اور جس چیز کو نا پسند کرتے ہو، وہی دیکھو گے۔ مزید برآں حرقوص کی گرفتاری کا مطالبہ کرکے تم نے ربیعہ اور مضروالوں کو بھی ناراض کردیا ہے، وہ لوگ بنو سعد کی حمایت میں تم سے جنگ کرنے اور تمھیں رسوا کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ
[1] الطبقات؍ ابن سعد (۷؍۹۲) اس کی دو سندیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید ص (۱۴۹)۔