کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 65
غزوۂ تبوک، امارت حج اور حجۃ الوداع میں
۱۔ غزوۂ تبوک میں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں تیس ہزار (۳۰۰۰۰) کا عظیم لشکر لے کر رومیوں سے قتال کرنے کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے اور جب آپ کی قیادت میں مسلمان ثنیۃ الوداع کے پاس جمع ہو گئے تو امراء وقائدین کو منتخب فرمایا اور ان کے لیے پرچم اور جھنڈے متعین کیے اور سب سے بڑا پرچم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عطا کیا۔[1]
۲۔ غزوہ تبوک میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عطیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر بقدر استطاعت عطیات دینے پر ابھارا کیونکہ سفر لمبا تھا، دشمن کی تعداد زیادہ تھی اور عطیات دینے والوں کے لیے اللہ کی جانب سے اجر عظیم دیے جانے کا وعدہ کیا۔ ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق عطیات پیش کیے۔ اس غزوہ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ عطیہ پیش کیا۔[2] اورعمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال عطیہ کر دیا اور ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آج وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جائیں گے۔
وہ خود بیان فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطیات پیش کرنے کا حکم فرمایا، اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے سمجھا کہ آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ میں نے اپنا نصف مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: عمر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟
میں نے عرض کیا: اسی کے مثل۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
آپ نے ان سے پوچھا: اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟
فرمایا: ان کے لیے اللہ و رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں ۔
میں نے کہا: میں کبھی کسی چیز میں آپ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔[3]
۳۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۹ہجری میں بحیثیت امیر حج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں معاشرہ کی تربیت اور سلطنت کی تعمیر عقائدی، اقتصادی، اجتماعی، سیاسی، عسکری اور تعبدی ہر اعتبار سے جاری تھی اور گزشتہ سالوں میں فریضہ حج ادا نہ کیا جا سکا تھا۔ فتح کے بعد ۸ہجری میں
[1] صفۃ الصفوۃ: ۱/۲۴۳۔
[2] السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ: ۶۱۵۔
[3] ابوداود: الزکاۃ ۲/ ۳۱۲۔ ۳۱۳ (۱۶۷۸) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔