کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 649
کہ جب تک دیگر شہروں کے باشندوں کی بیعت کی خبر نہ آجائے تب تک میں بیعت نہ لوں ، تو سنو! معاملہ اہل مدینہ کا تھا اور انھیں ترجیح حاصل ہے، ہم اسے (خلافت) ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے اور طلحہ و زبیر کے نکلتے وقت تم نے جو مشورہ دیا تو اس پر عمل کرنے میں مسلمانوں کی کمزوری کا اظہار تھا۔اللہ کی قسم! میں اپنی خلافت کے اوّل دن سے پریشان ہوں ، میرے کام ادھورے ہیں ، کوئی مناسب کام نہیں کرسکا ہوں اور تمھارا یہ مشورہ کہ میں گھر میں بیٹھا رہتا، تو یہ بتاؤ کہ جو ذمہ داریاں مجھ پر ہیں انھیں کون نبھاتا، بتاؤ کہ مجھ سے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا میں اس بِجّو کی طرح ہو جاؤں جو چاروں طرف سے گھیرے میں ہو اور اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہاں نہیں ہے، پھر جب اس کی ٹانگوں کے گھٹنوں کو کاٹ دیا جائے تب وہ باہر نکلے، جب میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں دیکھوں گا تو کون دیکھے گا۔ اے میرے بیٹے! چپ رہو۔[1] صلح کی کوششیں یہ بات گزر چکی ہے کہ بصرہ کی جانب کوچ کرنے سے پہلے علی رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں تک ’’ذوقار‘‘ میں قیام کیا اور ہر ممکن جائز تدابیر کے ذریعے سے مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور فتنہ کو دبانے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو جنگ کی نحوست اور مسلح ٹکراؤ سے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی۔ دوسری طرف طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی بھی یہی کوشش تھی۔ بہرحال جب فریقین میں صلح کی خوش آئند علامتیں نظر آئیں تو فتنہ سے کنارہ کش رہنے والے جن چند بزرگ صحابہ اور تابعین نے مصلحانہ کو ششوں میں حصہ لیا،وہ یہ ہیں : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ :…آپ نے دونوں فریقوں میں فضاء ہموار کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، پھر بنوعدی جن کی ایک بھاری تعداد زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، کے پاس اپنا قاصد روانہ کیا، قاصد ان کی مسجدمیں پہنچا اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی عمران بن حصین نے آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتے ہیں اور اللہ واحد کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ بدشکل حبشی غلام بن کر پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چراتے ہوئے مرجانا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے تیر چلاؤں ، معلوم نہیں وہ صحیح ہویا غلط، ان کی نصیحت ہے کہ ہم جی جان سے تمھیں چاہتے ہیں ، آپ لوگ لڑائی نہ کرو۔ ان لوگوں نے جواب دیا ہمیں مت سمجھائیے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑ سکیں گے۔[2] کعب بن سور رحمہ اللہ :…آپ کبار تابعین میں سے ہیں ، آپ نے صلح کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی، خود کو خطرہ میں ڈال کر ایسا کردار ادا کیا جسے خال خال لوگ ہی انجام دیتے ہیں ، آپ مستقل طور
[1] تاریخ الطبری (۵؍۴۸۲) ۔ [2] الطبقات؍ ابن سعد (۴؍۸۷) خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمیدص (۱۴۸)۔