کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 648
کی، آپ آئے تو دیکھا کہ امیر المومنین چلنے کو تیارہیں ، پھر بھی انھوں نے آپ سے اپنے اندیشے کا اظہار کیا اور عراق جانے سے یہ کہتے ہوئے روکا کہ مجھے ڈر ہے کہیں آپ پر تلوار کی دھاریں نہ واقع ہوجائیں ۔ اگر آپ منبر رسول چھوڑ کر جارہے ہیں ، تو اسے دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا، علی رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر بہت حدتک ان باتوں سے واقف تھے، کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے مطلع کردیاہے۔ ‘‘ علی رضی اللہ عنہ نے تو اتنے پر خاموشی اختیار کرلی، لیکن آپ کے ساتھ جو بصری اور کوفی لوگ تھے ان کی جرأت رندانہ دیکھئے، کہنے لگے: ’’اے علی! آپ ہمیں چھوڑیئے ہم اسے ابھی قتل کردیتے ہیں ۔‘‘ اب آپ ان کے اس جملے سے اندازہ کریں کہ جو مسلمان بھی ان کے راستے کا روڑا بنتا، یا اس کی بات یا عمل سے ان کی زندگی کو خطرہ محسوس ہوتا تو اسے قتل کردینا ان کے نزدیک کتنا معمولی کام تھا اور اس میں وہ کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔ گفتگو کا یہ انداز اور دھمکی بھرا لہجہ اس بات کی دلیل ہیں کہ ان شرپسندوں میں اللہ کا خوف بہت کم تھا اور صحابہ کرام کو اللہ کے رسول نے اپنی وفات کے بعد جس فضل عظیم کا مستحق ٹھہرایا اور انھیں جو مقام ومرتبہ دیا انھیں وہ مرتبہ نہیں دیتے تھے۔ بہرحال علی رضی اللہ عنہ نے انھیں سمجھایا اور ایسی حرکت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: عبداللہ بن سلام ایک نیک آدمی ہیں ۔[1] ۲۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی اپنے والد کو نصیحت: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہوگئے، اور ’’ربذہ‘‘[2] پہنچ کر اپنے فوجیوں کے ساتھ پڑاؤ ڈالا، وہاں دوسو کی تعداد میں مختلف علاقوں کے مسلمان آپ سے آکر مل گئے۔[3] ربذہ پہنچ کر آپ کے فرزند حسن رضی اللہ عنہ جو کہ مسلمانوں کے اختلاف و انتشار سے سخت متاثر تھے، اپنا غم نہ چھپا سکے اور روتے ہوئے اپنے والد علی رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے آپ کو کچھ مشورے دیے لیکن آپ ایک بھی نہ مانا، مستقبل میں آپ بھی بے یار و مددگار قتل کردیے جائیں گے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم برابر لونڈی کی طرح بھنبھناتے ہو۔ تم نے کیا مشورہ دیا، اور میں نے نہیں مانا؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوا تھا تب میں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ مدینہ سے باہر چلے جائیں اس طرح ان کے قتل کے وقت آپ مدینہ میں نہ رہیں لیکن آپ نے نہیں سنا، پھر جس دن وہ قتل کیے گئے، میں نے آپ سے کہا کہ جب تک تمام شہروں کے وفود اور ہر شہر کے باشندوں کی بیعت کی خبر نہ آجائے تب تک بیعت خلافت نہ لیجئے، پھر جب ان دونوں یعنی طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کیا تو میں نے کہا آپ گھر میں رہیں یہاں تک کہ لوگ آپس میں صلح کرلیں تاکہ اگر فساد ہو تو آپ بدنام نہ ہوں ، لیکن آپ نے میر ی ایک نہ سنی۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے عزیز! تمہارا یہ کہنا کہ ’’جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ تھا مجھے مدینہ سے باہر نکلنا چاہیے تھا۔‘‘ تو سنو! اللہ شاہد ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح ہم بھی بلوائیوں کے محاصرہ میں تھے اور تمہارا یہ کہنا
[1] مسند ابو یعلیٰ (۱؍ ۳۸۱) اس کی سند صحیح ہے۔ [2] مدینہ کے مشرق میں (۲۰۴) کلومیٹر کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔ [3] ’’ذباب، ذباب‘‘ گوہ کو بلانے کی آوازہے۔