کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 646
کرنے کو ترجیح دیا اور گورنروں کو دیگر شہروں میں بھیج دیا۔ [1] لیکن بعد میں حالات نے پلٹا کھائی، بے شمار نئے نئے سیاسی مسائل پیدا ہوگئے اور آپ کو بہرحال مدینہ چھوڑ نے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ آپ نے کوفہ جانے کو ترجیح دی تاکہ شام سے قریب رہیں ۔[2] جس وقت آپ مدینہ سے کوفہ جانے کی تیاری کررہے تھے، اسی دوران خبر ملی کہ عائشہ، طلحہ اورزبیر رضی اللہ عنہم بصرہ پہنچ چکے ہیں ۔[3] آپ نے اہل مدینہ سے مدد کی درخواست کی اور انھیں جنگ میں چلنے کی دعوت دی۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں مفسدین کی موجودگی اور ان کے ساتھ آپ کے نرم طرز عمل کو دیکھ کر مدینہ کے لوگ آگے پیچھے ہورہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ فتنہ اب بھی اپنی حالت پر باقی ہے، اس لیے جب تک حالات واضح طور سے معمول پر نہ آجائیں انتظار کرنا ضروری ہے۔ انھیں کے الفاظ میں : ’’اللہ کی قسم! ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم کیا کریں ، یہ معاملہ ہمارے لیے سخت پیچیدہ ہے، ہم مدینہ میں اس وقت تک قیام کریں گے جب تک کہ حالات واضح نہ ہوجائیں ۔‘‘ امام طبری روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے شام کے لیے جو تیاری کر رکھی تھی اسی کے ساتھ نکل پڑے اور آپ کے ساتھ بصرہ اور کوفہ کے وہ لوگ بھی نکلے جو بہت متحرک تھے اور اس طرح کل تعداد تقریباً سات سو (۷۰۰) تھی۔ [4] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی روانگی کے وقت بہت سارے اہل مدینہ کے دائیں بائیں ہونے اور آپ کی دعوت قبول نہ کرنے کے بہت سارے دلائل ہیں ، مثلاً امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کئی خطبوں میں صحابہ کے تردد اور ان کی عدم مشارکت پر اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔[5]اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سارے صحابہ نے صاف طور سے اپنی کنارہ کشی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سے بدری صحابہ نے اپنے گھروں میں گوشہ نشینی کو ترجیح دی اور تا عمر اسی پر قائم رہے۔[6] ابو حمیدالساعدی الانصاری رضی اللہ عنہ جو کہ ایک بدری صحابی ہیں ، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ پر اپنی تکلیف کا اظہار اس طرح کرتے ہیں : اے اللہ! میں قسم کھاتا ہوں کہ جب تک میں تجھ سے نہ آملوں ،ہنس نہیں سکتا۔[7]یہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اس نازک ترین حالت میں مدینہ سے نکل جانا ایسے پرفتن گڑھے میں پھسل جانے کے مترادف ہے جس کا انجام ماضی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کی بربادی کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔[8] تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام صحابہ آپ کا ساتھ دینے سے پیچھے رہے، بلکہ کچھ صحابہ نے آپ کا ساتھ دیا تھا،
[1] الثقات ؍ ابن حبان (۲؍ ۲۸۳) الأنصار فی العصر الراشدی ص (۱۶۱)۔ [2] استشہاد عثمان ووقعۃ الجمل ص (۱۸۳)۔ [3] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۰۷)۔ [4] تاریخ الطبری (۵؍۴۸۱)۔ [5] الطبقات (۳؍ ۲۳۷) الأنصار فی العصر الراشدی ص (۱۶۳)۔ [6] البدایۃ والنہایۃ، بحوالہ: الأنصار فی العصر الراشدی ص(۱۶۴)۔ [7] تاریخ الإسلام فی عہد الخلفاء الراشدین ۔ [8] الأنصار فی العصر الراشدی ص (۱۶۴)۔