کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 645
ان تمام فضائل ومناقب کی حامل عائشہ رضی اللہ عنہا جب بصرہ کے لیے روانہ ہوتی ہیں ، تو امہات المومنین رضی اللہ عنہن انھیں الوداع کہنے آتی ہیں ، گویا عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا یہ پیغام ہے کہ ہم آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ہم آپ کی حمایت میں ہیں ۔[1] چشمہ حوأب سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گزر: متعدد صحیح سندوں سے یہ ثابت ہے کہ بصرہ جاتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کا گزر چشمۂ ’’حوأب‘‘سے ہواتھا۔ چنانچہ یحییٰ بن سعید بن قطان، اسماعیل بن ابی خالد سے روایت کرتے ہیں اور وہ قیس بن حازم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب رات میں بنو عامر کے چشمے سے گزر رہی تھیں تو کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی، آپ نے پوچھا: یہ کون سا چشمہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ چشمۂ ’’حوأب‘‘ ہے۔ آپ کہنے لگیں : اب میں یہیں سے لوٹنے کا سوچ رہی ہوں ، کچھ لوگوں نے کہا: آپ ایسا نہ کریں ، چلیں تاکہ مسلمان آپ کو دیکھیں اور شاید اللہ تعالیٰ ان کے اختلاف کو ختم کردے، آپ کہنے لگیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھ سے کہا تھا: ((کَیْفَ بِاِحْدَاکُنَّ تنبح عَلَیْہَا کِلَابُ الْحَوأبِ۔))[2] ’’’اس وقت کیا ہوگا جب تم (بیویوں )میں سے کسی ایک پر چشمۂ حواب کے کتے بھونکیں گے۔‘‘ امیر لمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی مدینہ میں اقامت گزیں صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم مدینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی منتقلی کی تائید میں نہ تھے۔ یہ بات اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آئی جب آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے معلوم کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کی خاطرشام جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔[3]آپ سوچتے تھے کہ اس وقت اسلامی ریاست کے دیگر بڑے بڑے شہر جن اسباب ووسائل کے مالک ہیں ، مدینہ میں ترقی کے اب وہ بنیادی اجزاء واپس نہیں آسکتے۔ آپ نے کہا: ’’مالی استحکام اور افرادی قوت تو عراق میں ہے۔‘‘[4] جب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو آپ کا یہ رجحان معلوم ہوا تو کہا: اے امیرالمومنین! کیا ہی اچھا تھا کہ آپ یہیں قیام کرتے، یہ ایک محفوظ پناہ گاہ اور ہجرت گاہ رسول ہے، یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن ومنبر اور اسلام کی جڑ ہے۔ اگر اہل عرب آپ کے تابع ہوجاتے ہیں تو آپ بھی اپنے پیشرؤں کی طرح رہیں گے اور اگر کوئی قوم آپ کے خلاف گروہ بندی کرتی ہے تو اسے اسی کے دشمن سے کچل سکیں گے اوراگر نکلنے ہی پر مجبور ہونا پڑے گا تو آپ نکلیں گے اور معذور سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا مشورہ مان لیا اور مدینہ میں اقامت
[1] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۹) ۔ [2] مسند أحمد (۶؍ ۵۲)۔ [3] الثقات ؍ ابن حبان (۲؍ ۲۸۳) الأنصار فی العصر الراشدی ص (۱۶۱)۔ [4] ایضًا