کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 644
کا اپنے بیٹے کو بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ اصلاح بین المسلمین کے بارے میں آپ دیگر امہات المومنین کے خلاف تھیں ۔ خود عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھی یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ہمارا مقصد علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت، یا ان کی خلافت سے بغاوت ہے جیسا کہ ہم اس کے واضح دلائل دیکھ اور پڑھ چکے ہیں اور جیسا کہ مابعد کے واقعات اسی بات کی تاکید کرتے ہیں ۔ اسی طرح کسی بھی صحیح روایت میں یہ بات نہیں ملتی کہ انھوں نے اصلاح بین المسلمین کی جدو جہد میں امہات المومنین کے اجماع سے کبھی بغاوت کی ہو۔[1]
امہا ت المومنین کو معلوم تھاکہ مسلمانوں کے درمیان صلح و مصالحت کے لیے ہمارا نکلنا فرض کفایہ ہے، کیونکہ اس کا مطالبہ تمام مکلفین سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ اس کے پابند ہیں جن میں صلح ومصالحت کرنے کرانے کی صلاحیت ہو اور بلاشبہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں مقام ومرتبہ، عمر کی پختگی، اور علم قدرت ہر اعتبار سے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی پوری صلاحیت موجود تھی اور تمام مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ آپ رضی اللہ عنہا ان میں سب سے زیادہ فقہ وبصیرت کی مالک ہیں ۔[2] صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عام معاملات پر بھی آپ کی نگاہ ہوتی تھی۔ عربی تاریخ اور انساب عرب کے ماہر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں نشو ونما پانے اور اسلامی مملکت کی سیاسی بنیادیں رکھنے والے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں زندگی گزارنے کی وجہ سے آپ کی ذات ایک ہمہ گیر ثقافتی شخصیت کی شکل میں نکھر کر سامنے آئی تھی، مزید برآں آپ خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں ۔ ہر دور میں تمام علمائے شریعت
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اسی مرتبہ کے قائل رہے ہیں ۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ مجھے عائشہ کی صحبت ملی ہے، میں نے کسی قرآنی آیت، فریضہ، سنت اور شعر کے بارے میں ان سے زیادہ علم رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ اسی طرح تاریخ عرب، انساب عرب، قضاء اور طب وغیرہ میں بھی ان سے بڑا کسی کو نہیں جانتا۔ [3]
امام شعبی رحمہ اللہ جب ان کا ذکر چھیڑ تے تو ان کے علم وفقہ پر حیرت کا اظہار کرتے اور فرماتے:
’’ نبوی تربیت کو تم لوگ کیا جانو؟‘‘
اور عطاء رحمہ اللہ کہتے تھے:
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے زیادہ علم و فقہ کی مالک اور عوامی معاملات میں سب سے عمدہ مشورہ دینے والی تھیں ۔‘‘[4]
قبیلہ بنو تمیم کے سرداراور عرب کے فصحاء و بلغاء کی ممتاز شخصیت احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد خلفاء کے خطبے سنے ہیں ، لیکن کسی کی زبان سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح بہتر ین اور باوزن کلمات نہیں سنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کہتے تھے۔[5]
[1] دور المرأۃ السیاسی ص: (۳۸۷)
[2] سیر أعلام النبلاء: (۲؍۱۸۳)۔
[3] ایضًا
[4] ایضًا
[5] ایضًا (۳؍۱۸۵)۔