کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 643
دمِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلے کی کارروائی سے متعلق دیگر امہات المومنین کا موقف:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات اس موقع پر فتنہ سے بچنے کے لیے مکہ حج کرنے چلی گئیں اور جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو یہ مکہ ہی میں ٹھہر گئیں ۔ حالانکہ یہ مکہ سے مدینہ کے لیے نکل پڑی تھیں ، لیکن پھر واپس آگئیں اور انتظار کرنے لگیں کہ لوگ اب کیا کرتے ہیں ؟ اور اچھی خبریں کب آئیں گی۔
جب علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت ہوگئی تو بہت سارے صحابہ مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے، مدینہ میں شرپسندوں اور ہنگامہ کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر انھوں نے وہاں رہنا پسند نہیں کیا۔ اس طرح بے شمار صحابہ، مع امہات المومنین رضی اللہ عنھن مکہ میں اکٹھا ہوگئے۔[1]
جب گفت وشنید کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمام لوگوں کو مدینہ چلنے کا مشورہ دیا تھا، تو ازواج مطہرات نے بھی آپ کی تائید کی تھی۔ لیکن جب آپ رضی اللہ عنہا ، اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس بات پر متفق ہوئے کہ مدینہ کے بجائے بصرہ کا رخ کیا جائے تو بقیہ ازوج مطہرات نے اس میں شرکت سے انکار کردیا اور کہنے لگیں کہ ہم مدینہ کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گی۔[2]
گویاکہ دمِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلہ کے مطالبہ کے لیے نکلنے میں انھیں کوئی اختلاف نہ تھا، اگر اختلاف ہوا تو مدینہ کے بجائے بصرہ کا رخ کیے جانے کے فیصلہ کو لے کر ہوا۔ تاہم ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بصرہ جانے کو تیار تھیں ، لیکن ان کے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر انھیں جانے سے روکا۔ گویا برضا و رغبت نہیں بلکہ اپنے بھائی کے دباؤ میں رک گئی تھیں [3] اور اس کا اظہار عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ میں کیا :
’’عبداللہ میرے اور روانگی کے در میان حائل ہوگئے، اس لیے میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں ۔‘‘[4]
کتب تاریخ میں مروجہ روایات یہ بتاتی ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بصرہ جانے کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں کی رائے سے متفق نہ تھیں ، بلکہ وہ علی رضی اللہ عنہ کا موقف رکھتی تھیں ۔[5] حالانکہ صحت کے قریب ترین روایات یہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنے فرزند عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کوعلی رضی اللہ عنہ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ:
’’ اللہ کی قسم! یہ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ آپ کے ساتھ جائے گا اور لڑائیوں میں شریک رہے گا، چنانچہ وہ گئے اور مستقل طور پر علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ ‘‘[6]
یہ ایسی روایت ہے کہ اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو کسی اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۴۱)۔
[2] ایضًا
[3] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۶) ۔
[4] تاریخ طبری (۵؍۴۸۷)۔
[5] أنساب الاشرف (۴؍۲۲۴)۔
[6] اسد الغابۃ (۴؍ ۱۶۹) الإصابۃ (۴؍۴۸۷) دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۷) مرویات أبی مخنف ص (۲۵۷)۔