کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 642
یہ فتنہ ختم ہونے والا نہیں ، اس شور و شر کو ختم کرنے کے لیے ایک اور کام کی ضرورت ہے۔ تم دم عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلے کا مطالبہ کرکے اسلام کو عزت بخشو، چنانچہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے آپ کی بات پر لبیک کہا۔[1] اس وقت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے نکلے ہی نہ تھے، یہ دونوں تو عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چار ماہ بعد مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تھے۔ [2] کیا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھیوں پر دباؤ ڈال رکھا تھا؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کئی صحابہ بھی شامل تھے۔[3] مستشرق بروکلمان (Brockelmann) کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھیوں پر دباؤ ڈال رکھا تھا، اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہتی تھی بھڑکاتی تھیں ۔[4] طبری کی متعدد روایتیں مذکورہ نظریہ کے برعکس واضح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دیگر امہات المومنین اور اہل بصرہ کی ایک قابل ذکر تعداد کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں کی اصلاحی کوششوں کو حمایت وتائید حاصل تھی۔[5] اہل بصرہ کے مویدین اتنی تعداد میں تھے کہ انھیں نظر انداز کردینا آسان نہیں ہے، ان کے بارے میں طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ یہ لوگ بصرہ کے شریف ترین اور دین دار لوگ ہیں ۔[6]اور ان لوگوں کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’یہ وہاں کے نیک لوگ ہیں ۔‘‘[7]صاف ظاہر ہے کہ نیکوکاروں اورشرفاء کی اتنی بڑی جماعت نیک نیتی اور کارروائی کے فائدہ پر مضبوط عقیدہ رکھ کر ہی باہر نکلی ہوگی۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ اسے اچھی طرح سمجھ رہے تھے، اور اپنے عمل سے اس غلط نظریہ کی تردید کرنا چاہتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکلنے والے لوگ ہنگامہ پسند، اوباش اور نادان ہیں ۔[8]یہی وجہ تھی کہ جنگ جمل کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کی جماعت کے مقتولین میں آپ کھڑے ہوئے، ان کے فضل وعظمت کو سراہا اور ان کے لیے اللہ سے رحمت کی دعا کی۔[9] اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ کارروائی ہنگامی اور بے مقصد نہ تھی کہ جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے غیر صالح اور بے عمل لوگوں پر دباؤ بڑھایاہو، بلکہ کمال احتیاط اور نہایت بیدارمغزی کی کارروائی تھی جس میں بعض جلیل القدر صحابہ بھی شریک تھے۔[10]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۴۷۵)۔ [2] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۳) تاریخ الطبری (۵؍۴۶۹)۔ [3] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۴) ۔ [4] تاریخ الشعوب الإسلامیہ ص (۱۱۱،۱۱۴،۱۱۷)۔ [5] تاریخ الطبری (۵؍۴۷۵)۔ [6] تاریخ الطبری بحوالہ دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۵) ۔ [7] تاریخ الطبری بحوالہ دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۵) [8] دیکھئے: الإمامۃو السیاسۃ(۱؍۵۷)۔ [9] تاریخ الطبری (۵؍۴۷۴)۔ [10] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۵) ۔