کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 641
قاتلین عثمان پر قصاص نافذ کرنے کے لیے شرعاً ضروری تھاکہ: ٭ نامزد قاتلین کے خلاف دلیل ہو۔ ٭ مقتول کے اولیاء مجلس میں حاضر ہوں اور اپنے باپ یا رشتہ دار کے خون کے بدلے کا مطالبہ کریں ۔ ٭ پھر امام اجتہاد کرتا کہ کہیں قاتلین عثمان کو قصاص میں اجتماعی طور پر قتل کردینا مزید شر و فساد اور قتل وخون ریزی کا سبب تو نہیں بن رہا ہے کہ اس کے نتائج شہادت عثمان جیسے بھیانک یا اس سے بھی فزوں تر شکل میں ظاہر ہوں ۔ نیز وہ غو ر کرتے کہ حد قصاص کی تنفیذ کو بحالی امن تک موخر کرنا اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لیے حق کی جستجو میں لگے رہنا ہی امت کے حق میں نفع بخش ہے یا نہیں ؟ اور کیا یہی طرز عمل انھیں انتشار سے بچانے، فساد کو دور کرنے، اور تہمتوں سے پاک صاف رکھنے کا ذریعے سے ہوسکتا ہے، یا کچھ اور؟[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بصرہ روانگی سے متعلق چند قابل توجہ پہلو کیا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روانگی کے لیے مجبور کی گئی تھیں : یعقوبی،[2] الامامۃ و السیاسۃکے مولف،[3] ابن ابی الحدید[4]اور دینوری[5]کا گمان ہے کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو روانگی کے لیے مجبور کیا تھا۔ اسی طرح امام ذہبی کی بیان کردہ روایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا تسلط تھا۔ [6] بدقسمتی سے دور حاضر کے محمد سید وکیل[7] جیسے دیگر مولفین ومقالہ نگاروں نے اسی طرح کی روایتوں پر اعتماد کر لیا اور یہ لکھ ڈالا کہ زبیر اور طلحہ وغیرہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو روانگی پر ابھارا تھا۔[8] حالانکہ یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ موت کی خبر سنی تھی اسی دن سے انھوں نے آپ کے قاتلین کے خلاف خون کے بدلے کا مطالبہ شروع کردیا تھا، اس وقت زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما جیسے دیگر بزرگ صحابہ مکہ گئے ہی نہیں تھے۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں آیا ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ واپس لوٹ رہی تھیں تو راستے میں عبداللہ بن عامر الحضرمی رضی اللہ عنہ آپ سے آکر ملے اور پوچھا: اے ام المومنین! کیا بات ہوگئی کہ آپ مکہ واپس جارہی ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت نے مجھے واپس کیا ہے، اب
[1] التمہید؍ الباقلانی ص (۲۳۱) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۵۹)۔ [2] تاریخ الیعقوبی (۲؍ ۲۰۹،۱۸۰) ۔ [3] لإمامۃ والسیاسۃ (۱؍ ۵۸،۵۹)۔ [4] شرح نہج البلاغۃ (۹؍۱۸)۔ [5] الاخبار الطوال ص (۱۴۵)۔ [6] سیر أعلام النبلاء (۲؍ ۱۹۳)۔ [7] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین ص (۵۲۶)۔ [8] عائشۃ أم المومنین ص (۱۸۴)۔