کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 640
اپنے لشکر کے مشکوک افراد سے کوئی خدمت لینے سے گریز کرنا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان مشکوک لوگوں سے خطرہ لگا رہتاتھا، اس لیے آپ ان سے کوئی معاملہ کرتے تو چوکنے رہتے، یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے شام پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو ان میں کسی کو امیر نہیں بنایا، بلکہ اپنے فرزند محمد بن الحنفیہ کو بلا کر انھیں عَلَم سونپا۔ عبداللہ بن عباس کومیسرہ اور ابو لیلیٰ بن عمر بن الجراح کو مقدمہ الجیش پر مامور کیا۔[1] اور قثم بن عباس کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔[2]گویا یہ آپ کی طر ف سے ایک پہل تھی جس میں آپ باغیوں سے اپنی برأت کا واضح اشارہ دے رہے تھے اور بغیر ان کی مدد کے مسلمانوں کے معاملات کو سنبھال لینے کی قوت کا ثبوت دینا چاہتے تھے، اس لیے کہ مسلمانوں میں آپ کے عقیدت مند اور آپ کی خلافت کے اتنے مویدین موجود تھے کہ جن کے ہوتے ہوئے باغیوں کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس وقت آپ باغیوں کے ساتھ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ مزید برآں ان کے خاندان و رشتہ کے لوگ فوج میں شامل تھے، اگر آپ اس سے زیادہ اور کوئی سختی کرتے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ تھی کہ امت مسلمہ میں فتنہ کی رسی مزید دراز نہ ہوگی۔[3] اسی طرح جب آپ اور طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان قعقاع بن عمرو کی ثالثی پر مصالحت ہوگئی تو آپ نے اسی دن شام کو خطبہ دیا۔ پہلے جاہلیت، اس کی بدبختی اور اس کے گھناؤنے کاموں کا ذکر کیا، پھر اسلام اور اس کے متبعین کی باہمی محبت اور اتحاد کی خوش بختی کا ذکر کیا اور فرمایاکہ اللہ نے اپنے فضل خاص سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلیفہ ابو بکر، پھر عمر اور پھر عثمان پر امت مسلمہ کو متحد کیا، پھر یہ جانکاہ حادثہ پیش آیا جسے کچھ لوگوں یعنی قاتلین عثمان نے امت پر تھوپ دیا، انھوں نے دنیا طلب کی، اور جسے اللہ نے دنیا کی نعمت سے نوازا تھا اور اس پر اپنے فضل کی بارِش کی تھی اس پر حسد کیا، انھوں نے اسلام اور دیگر چیزوں کو پیچھے دھکیل دینا چاہا، اللہ اپنے معاملہ کے لیے کافی ہے۔[4] پھر فرمایا: اے لوگو ! میں کل یہاں سے کوچ کر نے والا ہوں ، سب لوگ کوچ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ خبردار! ہمارے ساتھ ایسا کوئی شخص ہرگز نہ چلے جو کسی معاملے میں کسی بھی طرح سے عثمان کے خلاف معاون رہا ہو۔ جاہل اور احمق لوگ بھی خود کو دور ہی رکھیں ۔[5] امام ابوبکر با قلانی رحمہ اللہ نے قاتلین عثمان پر تنفیذ قصاص کے موضوع پر بحث کی ہے اور حالات کی بحالی تک تنفیذقصاص کی تاخیر کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف تحریر کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیاہے کہ جب یہ بات ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ایک کے بدلے پوری جماعت کو قصاص میں قتل کردینے کے قائل تھے تو تمام
[1] تاریخ الطبری، بحوالہ تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۱۵۸)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍ ۴۷۰)۔ [3] إفادۃ الأخبار؍ التبانی (۲؍ ۵۲) بحوالہ: مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۵۹)۔ [4] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۲۵)۔ [5] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۲۵)۔