کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 64
مدینہ واپس آگئے۔ غزوئہ طائف میں شہید ہونے والوں میں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ ان کو ایک تیر لگا جس کے نتیجے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں فوت ہو گئے۔[1]
جب بنو ثقیف کے لوگ مدینہ میں اعلان اسلام کے لیے حاضر ہوئے تو جیسے ہی ان کا قافلہ مدینہ سے قریب پہنچا تو ان کے قبول اسلام کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنانے کے لیے ابوبکر اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما بے تاب ہو گئے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ ان کے آنے کی اطلاع سب سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کامیاب ہوئے اور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت سنائی۔[2]
جب ان لوگوں نے اسلام کا اعلان کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے تحریری اسلامی ضمان عطا کیا اور ان پر امیر مقرر کرنا چاہا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا جائے حالانکہ وہ ابھی ان میں کم عمر تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس نوجوان کو ان میں سب سے زیادہ اسلام کا علم حاصل کرنے اور قرآن سیکھنے کا شوقین پایا ہے۔[3]
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب لوگ دوپہر کو سو جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے دین کے بارے میں سوال کرتے اور قرآن پڑھتے، یہاں تک کہ دین کی بصیرت اور علم حاصل کر لیا اور جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتا ہوا پاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتے اور اپنی قوم پر اس کو ظاہر نہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ ادا بہت بھائی اور آپ ان سے محبت کرنے لگے۔[4]
جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شخص کا پتہ چلا جس نے آپ کے لخت جگر عبداللہ کو تیر مارا تھا اس وقت آپ نے جو بات کہی وہ آپ کے ایمان کی عظمت پر واضح ثبوت ہے۔ امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ طائف میں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو تیر لگا اور وہی زخم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چالیس روز بعد تازہ ہو گیا اور اسی میں وفات پا گئے۔ ثقیف کا وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ تیر آپ کے پاس محفوظ تھا۔ آپ نے اس تیر کو ان کے سامنے پیش کیا اور پوچھا: کیا تم میں سے کوئی اس تیر کو جانتا ہے؟ تو بنو عجلان میں سے سعید بن عبید نے کہا: میں نے ہی اس کو تیز کیا اور پر لگایا تھا اور میں نے ہی اس کو کھینچ کر مارا تھا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی وہ تیر ہے جس سے عبداللہ کا قتل ہوا ہے۔ اللہ کے لیے ہر طرح کی حمدوشکر ہے کہ اس نے تمھارے ہاتھ سے اس کو شہادت کا شرف بخشا اور تمھیں اس کے ہاتھ سے ذلیل نہ کیا۔ یقینا اللہ کی رحمت تم دونوں کے لیے وسیع ہے۔[5]
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۴/۱۹۳۔
[2] تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: ۱۵۱۔
[3] تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: ۱۵۱۔
[4] تاریخ الاسلام للذہبی: المغازی ۶۷۰۔
[5] خطب ابی بکر الصدیق: محمد احمد عاشور ۱۱۸ لیکن یہ روایت منقطع ہے۔