کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 639
قاتلین عثمان پر لعنت بھیج رہی ہیں ، تو آپ نے بھی دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھالیے اور کہا: میں بھی قاتلین عثمان پر لعنت بھیجتا ہوں ، ان پر اللہ کی لعنت نازل ہو وہ زمین میں ہوں یا پہاڑ پر۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ یہی بات دہرائی۔ [1] ابن سعد نے اپنی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ شاہد ہے کہ میں نے عثمان کوقتل نہیں کیا اور نہ ہی اس کا حکم دیا، بلکہ میں نے اس سے منع کیا۔ اللہ کی قسم ہے! میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی اس کاحکم دیا بلکہ میں بے بس کردیا گیا، آپ نے تین مرتبہ یہی بات دہرائی۔[2] نیز انھی سے مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جو شخص عثمان کے دین سے برأت کا اظہار کرے وہ ایمان سے برأت کا اظہارکر رہا ہے، اللہ کی قسم! میں ان کے قتل میں معاون نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے راضی ہوں۔‘‘[3] آپ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے تھے اور ان کے بارے میں کہتے تھے: وہ ہم میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے زیادہ رب سے ڈرنے والے تھے۔[4] اور عمیرہ بن سعد کا بیان ہے کہ ہم دریائے فرات کے ساحل پر علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ٹہل رہے تھے، ہمیں دریا میں ایک کشتی گزرتی ہوئی نظر آئی جس کا باد بان بلند تھا، علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: ﴿ وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ ﴾ (الرحمٰن: ۲۴) ’’اور اللہ ہی کی (ملکیت میں ) ہیں وہ جہاز جو سمندروں میں پہاڑ کی طرح بلند (چل پھررہے) ہیں ۔‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس نے اپنے سمندروں میں سے ایک سمندر میں اس کشتی کو رواں کیا! میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا اور نہ کسی کو اس پر ابھارا۔[5] آپ فرماتے ہیں کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی میں غم سے نڈھال ہوگیا۔[6] حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ان تمام روایات کی سندوں کو جمع کیا ہے جن میں علی رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے بَری ہیں اور یہ کہ آپ اپنے خطبوں وغیرہ میں قسم کھایا کرتے تھے کہ انھوں نے عثمان کو قتل نہیں کیا اور نہ اس سے راضی ہوئے۔ یہ بات آپ سے اتنی کثیر سندوں سے ثابت ہے کہ جو بہت سارے ائمہ کے نزدیک قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں ۔ [7]
[1] فضائل الصحابۃ (۱؍۵۵۵) حدیث نمبر( ۷۳۳) اس کی سند صحیح ہے۔ [2] الطبقات (۳/۸۲)، البدایہ والنھایۃ (۷/۲۰۲)۔ [3] الریاض النضرۃ ص (۵۴۳) ۔ [4] صفۃ الصفوۃ (۱؍ ۳۰۶)۔ [5] فضائل الصحابۃ (۱؍ ۵۵۹-۵۶۰) حدیث نمبر (۳۷۹) اس کی سند حسن لغیرہٖ ہے۔ [6] المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم (۵؍ ۶۱)۔ [7] البدایۃ والنہایۃ (۷؍ ۱۹۳)۔