کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 638
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کی تھی، یکسر جھوٹ اور بہتان ہے، متواتر روایات اس کے بالکل خلاف ہیں ۔ [1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ سب علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ اور افترا پردازی ہے، آپ ہرگز ہرگز دمِ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک نہ ہوئے، نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے خوش ہوئے، آپ جو کہ ایک سچے اور نیک انسان ہیں ، خود ہی اس کی صراحت کرتے ہیں ۔[2] فرماتے ہیں : ((اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ‘))[3] اے اللہ! میں تیرے پاس دم عثمان سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں ۔‘‘ امام حاکم نے اپنی سند سے قیس بن عبادہ سے روایت کیا ہے کہ جنگ جمل کے موقع پر میں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! میں تیرے نزدیک عثمان کے خون سے اپنی برأت ظاہرکرتا ہوں ، جس دن میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی، حواس باختہ ہوگیا اور میرا دل یقین نہیں کر رہا تھا۔ لوگ میرے پاس بیعت کرنے آئے تو میں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ ایسے لوگوں سے بیعت کروں جنھوں نے ایک ایسے آدمی کو قتل کیا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( أَ لَا أَسْتَحْیِ مِمَّنْ تَسْتَحْيِ مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ۔)) ’’ کیا میں ایسے آدمی سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ۔ ‘‘ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ عثمان زمین پر مقتول پڑے ہوں اور ابھی ان کی تدفین بھی نہیں ہوئی اور میں بیعت کرلوں ، یہ سن کر لوگ واپس چلے گئے اور جب آپ کی تدفین ہوگئی تو لو ٹ کر واپس آئے اور مجھے بیعت لینے کے لیے کہنے لگے، میں نے کہا: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ مُشْفِقٌ مِمَّا اَقْدِمُ عَلَیْہِ۔)) ’’اے اللہ! میں اس پر اقدام کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں ۔‘‘ لیکن پھر بھی میری ہمت بندھی اور عزیمت نے سہارا دیا، میں نے بیعت لے لی۔ لوگوں نے اس وقت جب مجھے ’’امیر المومنین‘‘ کہا تو مجھے ایسا لگا کہ احساس ذمہ داری سے میرا دل پھٹ جائے گا اور میں نے اللہ سے دعا کی: ((اَللّٰہُمَّ خُذُ مِنِّيْ لِعُثْمَانَ حَتَّی تَرْضَی۔)) [4] ’’اے اللہ! تو مجھ سے عثمان کے لیے وہ کام لے جس سے تو خوش ہوجائے۔‘‘ امام احمد اپنی سند سے محمد بن الحنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ مقام مربد[5] میں عائشہ رضی اللہ عنہا
[1] المستدرک (۳؍۱۰۳)۔ [2] منہاج السنۃ (۴؍۴۰۶)۔ [3] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۰۲) اس کی سند حسن ہے۔ [4] المستدرک (۳؍۹) یہ حدیث صحیح ہے، اور شیخین کی شرط پر ہے ۔ [5] بصرہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ بصرہ اور مربد کے درمیان تین میل کا فاصلہ ہے۔