کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 637
’’وہ وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنھیں وہ لے کر پہاڑی کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر چلاجائے گا۔ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے وہاں بھاگ کر آجائے گا۔‘‘ ان کے علاوہ متعدد احادیث ہیں جو صراحتاً قتال میں حصہ لینے سے روکتی ہیں ۔ امام جو ینی فرماتے ہیں : ’’علی رضی اللہ عنہ کے پرفتن دور میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد جماعتیں لڑائی میں شرکت کرنے سے کنارہ کش رہیں ، سکون وسلامتی کو ترجیح دی، اور فتنہ وفساد کے تھپیڑوں سے خود کو دور رکھا، انھی میں سے سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما بھی تھے۔[1] یہ دونوں جنت کے بشارت یافتہ تھے، اس فتنہ سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں سب سے پہلے ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن عمر، اسامہ ابن زید اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین نے پیش رفت کیا اور ان کے پیچھے صحابہ کی ایک جماعت رہی، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی عدم شرکت پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘‘ [2] جنگ سے کنارہ کش رہنے والے صحابہ کے نام: ٭ سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ٭ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ٭ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ٭ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ٭ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ٭ عمر ان بن حصین رضی اللہ عنہ ٭ سعید بن عاص اموی رضی اللہ عنہ ٭ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ٭ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ٭ صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ ٭ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ٭ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ٭ عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کاموقف: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر علی رضی اللہ عنہ نے سخت غم وغصہ کا اظہار کیا، ان کے خون سے اپنی برأت ظاہر کی، اپنے خطبوں اور دیگر مجلسوں میں قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا، نہ کسی کو اس کا حکم دیا، نہ کسی کو شہ دی اور نہ ہی اس واقعہ سے راضی ہوں ، یہ بات اتنی سندوں سے ثابت ہے جو قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں ۔[3] یہ حقیقت ان رافضی مفروضوں کے خلاف ہے جن میں علی رضی اللہ عنہ کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر مطمئن دکھایا گیا ہے۔[4] شہادت عثمان کے متعلق روایات کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بدعتیوں کا یہ دعویٰ کہ علی رضی اللہ عنہ نے
[1] تہذیب التہذیب (۴؍۳۰)۔ [2] غیاث الأمم فی تیاث الظلم ص (۸۵؍۸۶)۔ [3] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۰۲)۔ [4] العقیدۃ فی أہل البیت بین الأفراط والتفریط ص (۲۲۹)۔