کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 636
۳۔ ان دونوں نے صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے باغیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور نہ ہی معرکۂ جمل میں علی اور ان کے ساتھیوں سے قصداً لڑائی لڑی۔[1] جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ معرکۂ صفین میں علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر رہے۔ [2] ۴۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے معاملے میں ان دونوں نے علی رضی اللہ عنہ کو نرمی کرنے یا قاتلین کو مہلت دینے سے کبھی متہم نہیں کیا جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے آپ کو اس بات سے متہم کیا۔ [3] فتنہ سے کنارہ کش رہنے والوں کا موقف: فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے کنارہ کش رہنے والے بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تھی: (( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِيْ وَالْمَاشِيْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِيْ مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفُہُ فَمَنْ وَجَدَ مِنْہَا مَلْجَأً أَوْ مُعَاذاً فَلْیَعُذْبِہِ۔)) [4] ’’عنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا ان میں چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے، اس وقت جب کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یابچاؤ کا مقام مل سکے وہ اس میں چلاجائے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں فتنے سے ڈرایاگیا ہے اور اس میں حصہ لینے سے دور رہنے پر ابھارا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جس قدر اس میں حصہ لیا جائے گا اسی مقدار میں اس کی برائی اثر انداز ہوگی۔‘‘ [5] اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُوْشَکُ أَنْ یَّکُوْنَ خَیْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِہِا شَعْفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطَرِ یَفِرُّبِدِیْنِہِ مِنَ الْفِتَنِ۔)) [6]
[1] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۱۳) تاریخ الطبری (۳؍ ۴۷۵)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍ ۶۱۲تا۶۱۵) یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جنگ کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے پہل نہیں کی گئی تھی پہلی علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوئی تھی، انھوں نے اہل شام کو اطاعت کے دائرے میں لانے کے لیے یہ جنگ شروع کی تھی اور اس جنگ کے برپا کرنے میں بھی قاتلین عثمان کا زبردست ہاتھ تھا۔ (مترجم) [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۳۹) البدایۃ والنہایۃ (۷؍ ۲۵۹) یہ غلط فہمی اور افواہوں کی وجہ سے تھا کیونکہ مدینہ کی صحیح خبریں شام نہیں پہنچ رہی تھیں اور پھر قاتلین عثمان لشکر علی میں شامل ہو چکے تھے جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں تھیں ۔ (مترجم) [4] صحیح البخاری (۷۰۸۱) أبوہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، و صحیح مسلم (۲۸۸۶)۔ [5] فتح الباری (۱۳؍ ۳۱)۔ [6] صحیح البخاری (۷۰۸۸) بروایت أبو سعید خدری۔