کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 635
مفسدین کو میرے حوالے کردیں ۔ حالانکہ کسی بھی طالب قصاص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ خود معاملہ کا فیصلہ کرلے، بلکہ ایسے شخص کو پہلے امام وقت کی اطاعت قبول کرنی چاہیے، پھر اس کے پاس اپنا دعویٰ پیش کرے اور اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرے۔ [1] تمام مفتیان اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی فرد واحد کے لیے یہ جائز نہیں کہ حاکم وقت یا جس کو اس نے ذمہ دار بنایا ہے اسے چھوڑ کر خود ہی فریق مقابل سے قصاص لے۔ اس لیے کہ اس سے بدامنی پھیلے گی اور فتنہ وفساد عام ہوگا۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ کے غلط موقف کی یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ یہ آپ کی اجتہادی غلطی تھی، آپ کو یقین تھا کہ میں ہی حق پر ہوں ۔چنانچہ جب آپ نے باشندگان شام کو اکٹھا کیا اورتقریر کرتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کا چچازاد بھائی ہوں اور ان کے خون کا ولی ہوں ، وہ مظلوم شہید کیے گئے ہیں اور اللہ فرماتا ہے: ﴿ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ﴾ (الاسراء:۳۳) ’’اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔‘‘ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اس سلسلے میں اپنے موقف سے مجھے آگاہ کرو۔اہل شام بیک زبان دم عثمان رضی اللہ عنہ کے بدلہ کے مطالبہ پر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوگئے اور اسی بات پر آپ سے بیعت کی، اور آپ سے پختہ وعدہ کیا کہ ہم اس وقت تک آپ کے ساتھ جان ومال کی قربانی دیتے رہیں گے جب تک کہ اپنی تحریک میں کامیاب نہ ہوجائیں یا اس راستے میں ہم سب مارنہ ڈالے جائیں ۔[3] خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب ہم طلحہ وزبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے موقف کا باہم موازنہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ معاویہ کے بالمقابل طلحہ وزبیر چار اعتبار سے حق کے قریب تر تھے اور انھیں کا موقف زیادہ صحیح تھا: ۱۔ سمع وطاعت کا مظاہرہ اور علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی، جب کہ معاویہ علی رضی اللہ عنہ کے فضل ومرتبہ کے معترف ہونے کے باوجود بیعت کرنے سے باز رہے۔[4] ۲۔ اسلام اور مسلمانوں کی نگاہ میں ان دونوں کا جو مرتبہ ہے اور سبقت الی الاسلام کی انھیں جو فضیلت حاصل رہی، بلاشبہ ان چیزوں کے مقابلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ہم پلہ نہیں تھے۔[5]
[1] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۱۵۱)۔ [2] تفسیر القرطبی (۲؍۲۵۶)۔ [3] صفین ؍ ابن مزاحم ص (۳۲) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۵۲)۔ [4] البدایۃ والنہایۃ (۸؍ ۱۲۹) فتح الباری (۱۳؍ ۹۲)۔ [5] اسلام میں ان کی عظمت اس بات سے نمایاں ہوتی ہے کہ یہ دونوں جنت کے بشارت یافتہ تھے۔