کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 634
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر قصاص نافذ کرنے میں علی رضی اللہ عنہ کامیاب ہوجاتے تو پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کیا کرتے؟ یقینی بات ہے کہ اپنی صراحت کے بموجب علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرلیتے اور آپ کی اطاعت برضاور غبت قبول فرمالیتے۔ اسی طرح جو لوگ بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کے مطالبہ کو بنیاد بناکر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑرہے تھے وہ سب علی رضی اللہ عنہ پر بیعت کرلیتے۔ کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں کوئی اور بھید بھاؤ نہ تھا کہ جسے آپ نے ظاہر نہیں کیا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو یہ موقف جان کی بازی لگانے کا موقف ہوتا اور پھر طمع و حرص والے لوگوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ۔[1] وہ معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ کاتبین وحی میں سے ایک تھے اور جن کا شمار افاضل صحابہ میں ہوتا تھا، جوگفتار میں سب سے سچے اور کردار میں سب سے زیادہ بردبار تھے، ان کے بارے میں بھلا کیوں کر یہ عقیدہ رکھنا درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک زوال پذیر حکومت کے حصول کی خاطر شرعی خلیفہ کے خلاف جنگ چھڑیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے۔ جب کہ آپ خود فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم! اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان جب مجھے اختیار دیا جاتا ہے تو میں اللہ کو دوسروں پر ترجیح دیتاہوں ۔‘‘[2] اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا ہے: (( اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیاً مَہْدِیّاًواہْدِبِہِ۔)) [3] ’’اے اللہ! انھیں راستہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا، اور ان کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت دے۔‘‘ اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَللّٰہُمَّ عَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ۔)) [4] ’’اے اللہ! انھیں قرآن سکھادے اور انھیں عذاب سے بچا۔‘‘ شہادتِ عثمان کے متعلق معاویہ رضی اللہ عنہ کے موقف کی غلطی کی اصل وجہ یہ رہی کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرنے سے اس وقت تک کے لیے انکار کردیا جب تک کہ وہ قاتلین عثمان سے قصاص نہیں لے لیتے۔ مزید برآں ماضی میں شورش پسندوں کے خلاف آپ اپنے سخت موقف اور پھر دشمنوں کی طرف سے آپ کے قتل کی کوشش کی وجہ سے آپ کو اپنی جان کا شدید خطرہ لاحق تھا، حتی کہ آپ کو علی رضی اللہ عنہ سے التماس کرنا پڑا کہ ان
[1] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۵۰)۔ [2] سیر أعلام النبلاء (۳؍ ۱۵۱)۔ [3] صحیح سنن الترمذی ؍البانی، حدیث نمبر (۳۰۱۸) (۳؍ ۲۳۶)۔ [4] فضائل الصحابۃ (۲؍ ۹۱۳) اس کی سند حسن ہے۔