کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 633
ساتھیوں کی رائے تھی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیں ، پھر وہ سب آپ پر بیعت خلافت کرلیتے ہیں ، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کے رائے تھی کہ معاویہ اور ان کے ساتھی پہلے بیعت کریں پھر قصاص کا مسئلہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ تو صاف طور پر ظاہر ہے کہ اختلاف کا تعلق خلافت سے نہیں بلکہ قصاص سے تھا۔[1]
قاضی ابن العربی فرماتے ہیں :
’’اہل شام اور اہل عراق کے درمیان قتال کا سبب دونوں کے موقف کا فرق تھا۔ اہل عراق علی رضی اللہ عنہ کی بیعتِ خلافت کی حمایت میں تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی امامت پر تمام مسلمان پہلے متحد ہوجائیں ۔ جب کہ اہل شام کا موقف یہ تھا کہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر قابو پایاجائے اور ان سے قصاص لیا جائے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو پناہ دینے والے کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے۔‘‘ [2]
اور امام الحرمین الجوینی لکھتے ہیں :
’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا لیکن ان کی امامت کے کبھی منکر نہ ہوئے اور نہ اپنے لیے اس کا دعویٰ کیا۔ آپ اپنی صواب دید کے بموجب قاتلین عثمان سے قصاص کے طالب تھے، حالانکہ آپ غلطی کررہے تھے۔‘‘ [3]
امام ہیتمی فرماتے ہیں :
’’علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان رو نما ہونے والی لڑائیوں کے بارے میں اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ اس لڑائی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاویہ علی رضی اللہ عنہ سے خلافت چھیننا چاہتے تھے، اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو چکا تھا۔ پس فتنہ خلافت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ عثمان معاویہ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی تھے، اس لیے دم عثمان کا بدلہ چاہتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ اس وقت اسے نہیں مان رہے تھے۔‘‘[4]
متعدد روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے مطالبہ پر مصر رہے اور بصراحت کہہ دیا کہ جب قاتلین عثمان پر حد قصاص نافذ ہوجائے گا میں علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کرلوں گا۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اقتدار کی خواہش میں مطالبہ قصاص اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی لہر پیدا کرنے کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے محاذ آرائی کے لیے ایک بہانہ بنایا تھا، تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر
[1] البدایۃ والنہایۃ (۸؍ ۱۲۹)، فتح الباری (۱۳؍ ۹۲)۔
[2] العواصم من القواصم ص (۱۶۲)۔
[3] لمع الأدلۃ فی عقائد أہل السنۃ والجماعۃ ص (۱۱۵)۔
[4] الصواعق المحرقۃ (۲؍ ۶۲۲) دراصل یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا، ورنہ صحیح بات یہ تھی کہ پہلے بیعت کرتے پھر قصاص کا مطالبہ کرتے۔