کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 632
کے گھر میں ہواتھا۔[1] درحقیقت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی اجازت طلبی اور علی رضی اللہ عنہ کی عدم موافقت کی یہ تشریح ایک بے جا اور بے بنیاد تشریح ہے[2] اور مقدس صحابہ کرام کے حق میں ظلم ہے۔ بہرحال زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما مکہ گئے اور وہاں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کا مطالبہ کرنے والے بے شمار مسلمان ان سے آملے، پھر آگے جو کچھ ہوا اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔ ۳ معاویہ بن ابي سفیان رضی اللہ عنہما :…قدیم وجدید دونوں ادوار میں لوگوں کے در میان یہ بات مشہور ہے کہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کا سبب یہ تھا کہ معاویہ خلافت کے خواہاں تھے اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہ کر کے ان کی مخالفت اس لیے کیا کہ انھوں نے آپ کو شام کی گورنری سے معزول کردیا تھا۔ چنانچہ ابن قتیبہ الدینوری [3] کی طرف منسوب کی جانے والی کتاب ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ میں ابن الکواء سے مروی ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا، اس میں آیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ معاویہ طلقاء میں سے ہیں ، ان کے باپ نے غزوۂ احزاب میں مدینہ پر حملہ آور ہونے والی تمام جماعتوں کی قیادت کی تھی، بلا کسی شورائیت کے وہ خلافت کے دعوے دار ہو بیٹھے، اگر وہ تم سے سچ کہیں توانھیں خلافت سے ہٹانا حلال ہے اور اگر وہ تم سے جھوٹ کہیں تو تمھارے لیے ان سے بات چیت کرنا حرام ہے۔[4] لیکن حقیقت اس قول کے بالکل مخالف ہے۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں ، یہ رافضیوں کا من گھڑت کلام ہے، ان شاء اللہ ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ نامی کتاب کی حقیقت، اس کی کذب بیانی اور تاریخی حقائق کی تصویر بگاڑنے میں اس کے کردار کو آئندہ صفحات میں مناسب جگہ پر ذکر کروں گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تاریخ وادب کی بہت سے کتابیں ایسی موضوع اور ضعیف روایات سے بھری پڑی ہیں جو بادشاہت، سرداری اور حکومت طلبی کو معاویہ اور علی کے درمیان اختلاف کا سبب بتاتی ہیں ۔[5] صحیح بات یہ ہے کہ دونوں کے اختلاف کا سبب یہ تھا کہ معاویہ اور ان کے ساتھیوں کا خلافت علی پر بیعت کرنا کب واجب ہوتا ہے، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے سے قبل یا قصاص لینے کے بعد؟ معاویہ اور ان کے شامی
[1] الخلفاء الراشدون ص: (۳۷۲)۔ [2] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید علی رضی اللّٰه عنہ : (۱۱۸)۔ [3] ابن قتیبہ کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح نہیں ہے، اسے حسد وعداوت سے پر ایک رافضی نے تالیف کیا ہے۔ اس فصل کے آخر میں اس کتاب پر تفصیلی گفتگو آرہی ہے۔ [4] الإمامۃ و السیاسۃ (۱؍۱۱۳)۔ [5] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۲؍ ۱۴۵)۔