کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 631
قافلہ لے کر حاضر ہوتا ہوں ۔[1] لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اسے ٹالتے رہے اور ان دونوں سے کہتے: ’’ٹھہرو! یہاں تک کہ میں اچھی طرح حالات کا جائزہ لے لوں ۔‘‘[2] شاید علی رضی اللہ عنہ کو اس فتنہ کے بارے میں یہ خدشہ تھا کہ کہیں مدینہ کے اندر خانہ جنگی نہ شروع ہوجائے جس کا انجام بہرحال اچھا نہیں ہے اور اسی لیے آپ نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کا مشورہ نہیں مانا۔[3] طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے مشورہ کی نوعیت اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت وہ دونوں علی رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن تھے، انھیں اتفاق تھاکہ یقینا شورش پسند لوگ مسلمانوں کی صف میں پوری قوت کے ساتھ گھس چکے ہیں ، وہ مسلمانون پر قابویافتہ ہیں ، نہ کہ مسلمان ان پر۔ پس ان دونوں کا مطالبہ اس بات کی کوشش تھی کہ ایک شرعی حد کے تعطل کی مدت کم سے کم ہو اور علی رضی اللہ عنہ کے دست وبازو کو اس قدر مضبوط کردیا جائے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر آپ حد قصاص نافذ کرسکیں اور بقیہ صحابہ منتظر تھے کہ دیکھیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کیا اقدام کرتے ہیں ، لیکن علی رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر قابو پائے بغیر کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے، یہ فتنہ آگ کی چنگاری ہے، جب جب اس کی آگ بھڑکائی جائے گی وہ زیادہ ہی ہوگی۔[4] جب طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہما اور ان دونوں کے موافقین نے دیکھا کہ شہادت عثمان پر چار مہینے گزر گئے، اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر قصاص نافذ کرنے میں علی رضی اللہ عنہ اب تک کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس کافی قوت و طاقت تھی اوروہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں گھس چکے تھے، تو ان دونوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں مدینہ سے نکل جانے کی اجازت دے دیں یا تو آپ حالات قابو میں لائیں یا ہمیں چھوڑ دیں ۔ آپ نے کہا: جب تک کنٹرول کرسکوں گا کروں گا اور جب کوئی چارہ کار نہ ر ہے گا تو آخری علاج ’’کیّ‘‘ آگ سے داغنا ہی ہے۔ [5]علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ ان دونوں کے مدینہ چھوڑنے کا مقصد کسی حل تک پہنچنے کی ایک کوشش ہے۔ اس لیے آپ نے ان دونوں کو منع نہیں کیا۔ غالباً آپ کی بھی تمنا تھی کہ شاید کوئی بہتر حل نکل ہی آئے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اسی کے لیے کوشاں بھی تھے لیکن اپنے مخصوص طریقے سے اسے حل کرنا چاہتے تھے۔[6] بعض معاصر محققین نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی بصرہ وکوفہ جانے کی اجازت طلبی اور وہاں سے شہ سواروں کو لاکر شرپسندوں کی سرکوبی اور علی رضی اللہ عنہ کی عدم موافقت کو غلط معنوں پر محمول کیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں سے ڈر گئے اور آپ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ دونوں آپ کے خلاف ایک نئے فتنے کی شکل میں نہ لوٹیں اور وہی کچھ کرگزریں جو مصر والوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا اور وہی دن نہ لوٹ آئے جو عثمان کے ساتھ ان
[1] تاریخ طبری (۵؍۳۶۱)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍۳۶۱)۔ [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍ ۱۰۸)۔ [4] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۷) دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۰)۔ [5] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۶۸) دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۰)۔ [6] دور المرأۃ السیاسی ص (۳۸۰-۳۸۱)۔