کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 630
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا اعلان سن کر فتنہ سبائیت کے لیڈروں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ خلیفہ انھیں ان کے جانباز معاونین سے بے دست و پا کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے انھوں نے آپ کے اعلان کی مخالفت کی اور پاس پڑوس کے بدؤوں کو مدینہ نہ چھوڑنے پر ابھارا۔ چنانچہ تمام فسادیوں نے ان لیڈروں کی بات مان لی اور مدینہ خالی نہ کیا، بیعت خلافت کے تیسرے دن علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اہل مدینہ کو مخاطب کرکے کہا: مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بدؤوں کو یہاں سے نکال دو اور خود ان بدؤوں سے کہا: اے بدؤو! اپنے اپنے چشموں اور علاقوں میں واپس چلے جاؤ، لیکن سبائیوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور بدوؤں نے بھی انھیں کی باتیں مانیں ۔ اتنا کہہ کر علی رضی اللہ عنہ اپنے گھرکے اندر چلے گئے اور چند صحابہ کے ساتھ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پاس اندر گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جاؤ دیکھو! اب خون کے بدلے کا تمہارا مطالبہ تمھارے حوالے ہے۔ وہ سب کہنے لگے: مفسدین اندھے ہوگئے ہیں ، وہ کچھ سننے کو تیارنہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد وہ اور بھی اندھے اور سرکش ہو جائیں گے:
لَوْ أَنَّ قَوْمِيْ طَاوَعَتْنِيْ سَرَاتُہُمْ أَمَرْ تُہُمْ أَمَراً یُدِیْخُ الْأَعَادِیَا[1]
’’کاش کہ میری قوم کے سرکردہ وبا اثر لوگ میری بات مان لیتے، تو میں انھیں ایسا حکم دیتا جو دشمنوں کو اپنے تابع بنا کر رہتا۔‘‘
علی و طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی مذکورہ گفت وشنید سے صاف طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت تک علی، طلحہ، زبیر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، امت مسلمہ میں انتشار ڈالنے والی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی جماعت پر نفاذ قصاص کے لیے بالکل متفق ومتحداور باہم متعاون تھے تاکہ ان کے فساد سے پورا دین متاثر نہ ہو۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ موقف بالکل منطقی تھا اور صحابۂ کرام بھی آپ کی رائے سے متفق تھے لیکن یہ شورش پسندجنھوں نے کلیدی کردار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور مدینہ کے غلاموں اور پاس پڑوس کے بدؤؤں کو وہاں کے باشندوں سے لڑائی پر ابھار چکے تھے اور انھیں جس طرح چاہتے برا بھلا کہتے، پھر کسی میں ان سے قتال کی طاقت نہ تھی، ان سے کیسے نمٹا جائے، اسی طریقہ کار میں اختلاف تھا۔[2]
چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کو سبائیت کے نرغے سے نکالنے اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے آپ کو ایک مشورہ دیا۔ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’آپ اجازت دیں تو میں بصرہ جاؤں اور قبل اس کے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف کوئی تخریبی کارروائی کریں میں شہ سواروں کی ایک جماعت لے کر حاضر ہوتاہوں ‘‘ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مجھے کوفہ جانے دیجیے، قبل اس کے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اچانک کوئی غلط اقدام کریں میں شہ سواروں کا ایک
[1] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۱)۔
[2] فتح الباری (۱۲؍۳۶۰)۔