کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 63
ہو جائیں ۔‘‘
یُبَارینَ الَاسِنَّۃَ مُصغیاتٍ
علی أَکتافِہا الأَسَلُ الظِّمَائُ
’’نیزوں کے چلانے میں پوری توجہ سے مقابلہ کر رہے ہیں ، ان کے کندھوں پر تیز تلواریں ہیں ۔‘‘
تظلُّ جِیادُنا متمطِّراتٍ
تلطمَہُنَّ بالخُمر النِّسائُ[1]
’’ہمارے گھوڑے تیز رفتاری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے ہیں ، خواتین اپنے دوپٹوں سے ان کے غبار کو جھاڑتی ہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکہ میں وہاں سے داخل ہو جہاں سے حسان نے کہا ہے۔[2]
ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اللہ کی نعمت پوری ہوئی اور اس زریں موقع پر آپ کے والد ابوقحافہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔[3]
۲۔ حنین میں :
غزوۂ حنین میں مسلمانوں کو سخت ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا، بایں طور کہ معرکہ کے آغاز ہی میں ہزیمت لاحق ہوئی، جس کی وجہ سے مسلمان تاب نہ لا سکے اور بھاگنے لگے۔ امام طبری نے اس کی منظر کشی کی ہے، فرماتے ہیں : لوگ تیزی سے بھاگنے لگے، کوئی کسی کو نہیں دیکھتا تھا،[4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو پکار رہے تھے: لوگو!کہاں بھاگ رہے ہو؟ میرے پاس آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں ، میں محمد بن عبداللہ ہوں … اے انصار! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں … پھر آپ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو آواز دی، ان کی آواز بلند تھی اور ان سے کہا: عباس! پکارو: اے انصار کی جماعت! اے ببول کے نیچے بیعت کرنے والو! [5] معرکے کے آغاز میں مسلمانوں کی یہ صورت حال تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا میدان میں رہ گئے تھے آپ کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے۔ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان میں جمع رہے وہ کبار صحابہ تھے اور ان میں آگے آگے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل نصرت وتائید سے نوازا اور فتح سے ہمکنار ہوئے۔[6]
۳۔طائف کے میدان میں :
طائف کے محاصرہ میں صحابہ کرام کو زخم آئے اور شہادتیں پیش آئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محاصرہ ختم کر کے
[1] مستدرک الحاکم: ۳/۷۲، اور صحیح الاسناد قرار دیا، اور ذہبی نے موافقت کی ہے۔
[2] مستدرک الحاکم: ۳/ ۷۲، الطبری: ۳/۴۲۔
[3] تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: ۱۴۷۔
[4] تاریخ الطبری: ۳/۷۴۔
[5] مسلم: الجہاد والسیر ، باب فی غزوۃ حنین ، رقم: ۱۷۷۵۔
[6] مواقف الصدیق مع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی المدینۃ: ۴۳۔