کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 629
آپ رضی اللہ عنہا سے متعدد احادیث وارد ہیں ۔ (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت علی، ص: ۶۱۲)
۲ـ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما :…سیّدنا طلحہ، زبیر اور دیگر اکابر صحابہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ان لوگوں سے قصاص لیجئے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیا: بھائیو! جو کچھ آپ جانتے ہیں اس سے میں بھی ناواقف نہیں ہوں ، مگر میں ان لوگوں کو کیسے پکڑوں جو اس وقت ہم پر قابو یافتہ ہیں نہ کہ ہم ان پر۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمھارے غلام ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، پاس پڑوس کے دیہاتی ان کے ساتھ جمع ہیں ، وہ تمھارے درمیان رہ کر جس طرح چاہتے ہیں تمھیں مجبور کررہے ہیں ۔ ایسی حالت میں کیاآپ حضرات اس کام کی کوئی گنجائش کہیں دیکھ رہے ہیں جسے آپ کرنا چاہتے ہیں ؟ سب نے کہا: نہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جو تمھاری رائے ہے وہی میری بھی رائے ہے ان شاء اللہ۔ لیکن یہ حالات بعینہٖ زمانۂ جاہلیت کے حالات ہیں ، اور اس قوم میں ابھی جاہلیت کا مادہ پایا جاتاہے۔ کیونکہ شیطان کی کوئی ایک معینہ راہ اور طریقہ نہیں کہ جس طریقہ کو اختیار کرنے والا اس کی چال سے محفوظ رہے۔
اس معاملہ کو اگر حرکت دی جاتی ہے تو لوگوں کے اس سلسلے میں مختلف خیالات ہوں گے۔ ایک فریق تو آپ ہی لوگوں جیسی فکر رکھتا ہے اور ایک فریق آپ لوگوں کی فکر کے بالکل خلاف ہے، جب کہ تیسرا فریق دونوں کی حمایت سے کنارہ کش ہے اور اس کو انتظار ہے کہ جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں ، امن واستقرار کا ماحول نہ پیدا ہوجائے اور جس کے جو حقوق ہیں اس تک انھیں پہنچا نہ دیا جائے۔ لہٰذا آپ لوگ ہم سے ذرا خاموش رہیں اور دیکھو کہ کیا کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد ہمارے پاس آؤ۔[1]
لیکن اس حکیمانہ سیاست کو چند لوگوں نے نہیں سمجھا اور ایسا ہوتا ہے کہ لوگ غصہ کی حالت میں یا جذبات کی رو میں بہ کر معاملات کی حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے کہ جس سے حالات کا صحیح اندازہ لگاسکیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندازے میں حالات الٹ نظرآتے ہیں ، وہ ناممکن کو ممکن گمان کرتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ان کے لوگوں کے ساتھ ہوا، اور کہنے لگے: ’’جو ہم پر واجب ہے اسے ہم کرگزریں اور اس میں تاخیر نہ کریں ۔‘‘[2] مطلب یہ تھا کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ پر حد قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے۔[3] جب علی رضی اللہ عنہ کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے اپنے موقف کی تائید میں ، ثبوت دینا مناسب سمجھا کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں نہ ہم کچھ کرسکتے ہیں اور نہ دم ِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبین ہی، چنانچہ آپ نے اعلان کردیا کہ اس غلام سے ہم بری الذمہ ہیں جو اپنے مالک کے پاس واپس نہ چلا جائے۔ یہ سننا تھا کہ سبائیوں اور دیہاتیوں نے ایک دوسرے کو لڑائی پر ابھارنا شروع کردیا اور کہنے لگے: کل ہم لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا جائے گا اور پھر ہمارے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔[4]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۰)۔
[2] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۰)۔
[3] الدورالسیاسی ص (۳۷۸)۔
[4] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۰)۔