کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 628
کسی کی حمایت کو ترجیح نہیں دے پارہے تھے۔ اس لیے ددنوں سے الگ رہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان کے لیے الگ رہنا ہی ضروری تھا، اس لیے کہ جب تک کسی مسلمان کے خلاف قتال کے شرعی اسباب ظاہر نہ ہوجائیں اس کے خلاف اقدام کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ان لوگوں کے سامنے فریقین میں سے کسی ایک کے حق بجانب ہونے کار جحان واضح ہوتا اور مانتے کہ حق اسی کے ساتھ ہے تو ان کے لیے ایسے فریق کی حمایت ومدد سے پیچھے رہنا، اور اس کے مخالفین سے جنگ نہ کرنا جائز نہ ہوتا۔‘‘[1] قصاص طلب کرنے میں طلحہ، زبیر، عائشہ و معاویہ رضی اللہ عنہم کا موقف: ۱۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا : …مکہ سے مدینہ واپسی کے راستہ میں جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو مکہ واپس لوٹ گئیں اور مسجد حرام میں داخل ہوکر حجر (حطیم)میں پردہ کرکے بیٹھ گئیں ، لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا: ’’حضرات! مختلف شہروں اور دیہاتوں کے فسادی لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہے، انھوں نے عثمان کے نوعمروں کو گورنر بنانے پر اعتراض کیا، درآں حالیکہ ان جیسے لوگوں کو اس سے قبل بھی مناصب حکومت پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔ چراگاہوں پر اعتراض کیا، حالانکہ اس میں بھی کوئی معقولیت نہ تھی، ان کے لیے جب کوئی بہانہ اور عذر نہ رہا تو انھوں نے اخلاق و شریعت کی تمام قدروں کو توڑ کر ایک حرام خون، نیز بلدحرام، شہر حرام اور مال حرام کو بھی اپنے لیے حلال کرلیا۔ اللہ کی قسم! عثمان کی ایک انگلی روئے زمین کے ان جیسے لوگوں سے بہتر ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے خلاف جمع ہوجاؤ تاکہ انھیں ایسی عبرت ناک سزادی جائے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے عبرت ہو اور آئندہ کسی کو اس طرح دیدہ دلیری کی جسارت نہ ہو۔ اللہ کی قسم! جس بات کو لے کر انھوں نے عثمان پر دست درازی کی ہے اگر وہ گناہ تھا تو وہ اس سے بالکل اسی طرح پا ک صاف ہوچکے تھے، جس طرح کندن بنایا ہوا سونا خراب سونے سے، یا میل کچیل سے پاک کپڑا جب اسے پانی میں دھل کر نچوڑ دیا جائے۔ ‘‘[2] ایک روایت میں ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا واپس مکہ پہنچیں تو امیر مکہ عبداللہ بن عامر الحضرمی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: ’’اے ام المومنین آپ کیوں واپس آگئیں ؟‘‘ تو آپ نے جواب دیا: ’’عثمان کی مظلومانہ شہادت نے مجھے واپس لوٹایا ہے، یہ فتنہ ابھی دبتا ہوا نظر نہیں آتا، اس لیے مظلوم خلیفہ کا خون رائیگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لے کر اسلام کی عزت بچاؤ۔‘‘[3] صحیح اور صریح احادیث میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں تعریف اور آپ کے قاتلین پر لعنت ثابت ہے، نیز عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں
[1] شرح النووی علی صحیح مسلم (۱۵؍۱۴۹)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍۴۷۳-۴۷۴)۔ [3] تاریخ الطبری (۵؍؍۴۷۵)۔