کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 627
کے لیے خلافت کو تسلیم کرتے تھے۔ اگر کوئی اس سلسلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کا اقرار کرتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ کبھی خیال نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کا آغا ز ان کی طرف سے ہو اور نہ ہی ایسا کیا۔ ‘‘[1] مزید فرماتے ہیں : ’’فریقین عثمانی و علوی سب ہی اس بات کے اقراری تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ نہیں ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کا استخلاف ممکن ہوتے ہوئے معاویہ خلیفہ نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ جس طرح آپ کے پیشرو خلفاء ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت ان کے درمیان معلوم و مشہور تھی اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کے بالمقابل علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت، علم، دین، شجاعت، دین کی طرف پیش قدمی اور دیگر فضائل ان سب کے نزدیک معروف ومشہور تھے۔‘‘ [2] بلاشبہ اختلاف کی بنیاد یہ کبھی نہ تھی کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کسی کو اعتراض تھا، بلکہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا معاملہ اصل محل اختلاف تھا اور اس میں بھی قصاص لینے پر کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ اس کی نوعیت وکیفیت میں اختلاف تھا کہ کس طرح اس معاملہ کو حل کیاجائے۔ علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کے وجوب کے قائل تھے لیکن آپ کی رائے تھی کہ اس مسئلہ کو اس وقت تک کے لیے موخر کردیا جائے جب تک ملکی حالات اپنے معمول پر نہ آجائیں ، ماحول پرسکون نہ ہوجائے اور مسلمان متحدنہ ہوجائیں ۔ [3] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’صحابہ کے درمیان قائم ہونے والی جنگوں کا سبب یہ تھا کہ معاملات بہت پیچیدہ اور ناقابل فہم تھے اور یہی پیچیدگی ان کے اجتہادی اختلاف کا سبب بن گئی، وہ تین حصوں میں بٹ گئے: پہلا فریق وہ تھا جس کے خیال میں علی رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں حق بجانب اور ان کا مخالف باغی تھا، لہٰذا ان لوگوں نے سوچا کہ علی رضی اللہ عنہ کی تائید وحمایت کرنا اور ان کے باغیوں سے قتال کرنا ضروری ہے، اورہر فرد جو اس خیال سے متفق ہو اس کے لیے ایسی حالت میں باغیوں کے خلاف امام عادل کی فوری مدد ضروری ہے اور اس سے پیچھے ہٹنا جائز نہیں ، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ دوسرافریق وہ تھا جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے اجتہاد میں حق بجانت سمجھا پھر آپ کی مدد کی، اور مخالفین سے قتال کیا۔ جب کہ تیسرے فریق کے سامنے معاملہ غیر واضح تھا، وہ حیران تھے کہ کیا کریں ، فریقین میں سے
[1] مجموع الفتاوٰی (۳۵؍۷۲)۔ [2] ایضًا۔ [3] أحداث وأحادیث فتنۃ الہرج، ص (۱۵۸)۔