کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 626
اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف نفرت کی آگ لگانے والے جو خطوط ان کی طرف منسوب تھے سب نے ان سے اپنی برأت ظاہر کی۔[1]
بدؤوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو حقوق کا محافظ پایا اور فسادیوں نے آپ پر جو کچھ تہمتیں لگائی تھیں آپ نے اس سلسلے میں ان سے مناظرہ کیا، ان کی بہتان طرازیوں کی تردید کی اور اپنے گورنروں کی سچائی وامانت داری کو ان کے سامنے واضح کیا۔ یہ سب کچھ دیکھ سن کر ان اعرابیوں کے ایک قائد مالک بن اشتر نخعی نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
’’ شاید اس کے اور تمھارے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ ‘‘[2]
امام ذہبی رحمہ اللہ عبداللہ بن سبا کو مصر میں فتنہ کا سرغنہ، گورنروں اور پھر امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف حقد وحسد اور انتقامی جذبے کی بیج بونے والا قراردیتے ہیں ۔[3] ابن سبا تنہا سب کچھ نہ تھا، بلکہ سازش کاروں کے سازشی جال، دھوکا، حیلہ اور مکر جیسے متعدد اسلوب اور بدؤوں اور قراء کی فوج کشی کے توسط سے اپنی کارروائی انجام دے رہا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ابن سبا کا ظہور اور اس کا مصر جانا، اور پھر لوگوں کے درمیان خود ساختہ عقیدہ کو رواج دینا، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف متعدد پارٹیوں کے اٹھ کھڑے ہونے کا سبب تھا۔ اس کی اس چال سے باشندگان مصر کے بہت سے لوگ فتنے میں پڑ گئے۔[4]
قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے لیے طریقہ کار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ، اورطلحہ، زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان دو فریق کی حیثیت سے جو اختلاف ابھرا اور پھر علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو محاذآرائی ہوئی اس کا سبب یہ نہ تھا کہ ان لوگوں کو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت یا استحقاق خلافت اور مسلمانوں کا حاکم ہونے پر اعتراض تھا۔ بلکہ آپ کی خلافت پر وہ سب متفق تھے جیسا کہ حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور استحقاق خلافت کا کبھی انکار نہ کیا، بس آپ سے غلطی صرف اتنی ہوئی کہ آپ کے اجتہاد نے آپ کو اس نتیجہ پر پہنچایا کہ قاتلینِ عثمان سے قصاص بیعتِ خلافت سے پہلے لی جائے اور یہ کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے وہ زیادہ حق دار ہیں ۔ ‘‘[5]
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعویٰ نہ کیا اور جس وقت وہ علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے خلافت کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی اور نہ خود کو خلیفہ یا خلیفہ کاحق دار سمجھ کر قتال کیا، بلکہ یہ سب لوگ علی رضی اللہ عنہ
[1] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۸) تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍ ۳۳۰)۔
[2] تحقیق مواقف الصحابہ (۱؍۳۳۱)۔
[3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۸)۔
[4] البدایۃ والنہایۃ (۷؍ ۱۶۷-۱۶۸)۔
[5] الفصل فی الملل والأ ھواء والنحل (۴؍ ۱۶۰)۔