کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 625
کی یہ ہوا مدینہ تک آپہنچی اور پوری اسلامی سلطنت کو ان لوگوں نے اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی لپیٹ میں لے لیا، حالانکہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف تھا، منہ سے کچھ کہتے اور عملاً کچھ کرتے اور ان خطوط کو سن کر ہر شہر والے کہتے: ’’ لوگ جس فتنے میں ہیں ہم اس سے عافیت میں ہیں ۔‘‘ [1]
ایک دوسرا اسلوب یہ اختیار کیا کہ اپنے اس حملہ میں سادہ دل بدوؤں کو استعمال کیا، تاکہ ان کے ذریعے سے اپنا منصوبہ نافذکرسکے، ان میں جو قراء تھے، انھیں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے نام پر بہکایا۔ لالچیوں اور دولت کے پجاریوں کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹے اور سخت تکلیف دہ پروپیگنڈوں کے ذریعے سے بھڑکایا، مثلا یہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ انھو ں نے سرکاری مناصب پر اپنے قرابت داروں کو مقرر کردیا ہے، مسلمانوں کے بیت المال سے ناجائز طور پرمال اپنے قرابت داروں میں لٹا رہے ہیں اور حکومتی چراگاہ کو اپنے لیے خاص کرلیا ہے، اس کے علاوہ آپ پر اور کئی تہمتیں لگائیں ، جن سے ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مزید غصہ سے بھڑک گئے۔ حالانکہ آپ ان تمام تہمتوں سے بالکل پاک صاف تھے۔
پھر ایک تیسرا اسلوب یہ اختیار کیا کہ اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی کہ سب اپنے اپنے شہروں سے دوسرے شہروں میں غلط اور غصہ بھڑکانے والی خبروں پر مشتمل خطوط بھیجیں ۔ اس طرح ملک کے تمام شہروں میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ حالات اب بد سے بدتر ہوچکے ہیں اور اس کا فائدہ راست طور سے سبائیوں کو پہنچے گا، کیونکہ عوام الناس کے زبانی حالات کی ابتری کی تصدیق سے اسلامی معاشرہ میں شرانگیزی کرنے کا انھیں موقع مل جائے گا۔[2]
دوسری طرف عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ احساس ہو رہا تھاکہ شہروں میں کچھ نہ کچھ شرانگیزی ہورہی ہے اور معاملہ بگاڑ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا:
’’ اللہ کی قسم! بے شک فتنہ کی چکی گھوم چکی ہے۔ اگر عثمان کی موت اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اسے حرکت نہ دی تو عثمان کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘[3]
ابن سبا کی سرگرمیوں کا مرکز مصر تھا۔ اس نے وہیں سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی ساز ش کو منظم کیا تھا اور یہ پروپیگنڈہ کر کے کہ عثمان نے خلافت پر ناحق قبضہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی یعنی علی رضی اللہ عنہ کے حق کو غصب کرلیا ہے۔ فتنہ کی آگ بھڑکانے کے لیے لوگوں کو مدینہ چلنے پر ابھارنے لگا۔[4]
کبار صحابہ کی طرف منسوب جھوٹے خطوط دکھا دکھا کرلوگوں کو دھوکے میں رکھا، یہاں تک کہ جب یہ اعرابی مدینہ منورہ پہنچے اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو انھیں ان کی طرف سے کوئی دل جوئی اور ہمت افزائی نہ ملی،
[1] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۸)۔
[2] الدولۃ الأمویۃ ؍ یوسف العشي، ص (۱۶۸)۔
[3] تاریخ الطبری (۵؍۲۵۰)۔
[4] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۸) تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍ ۳۳۰)۔