کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 624
﴿ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ﴾ (القصص :۸۵)’’بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تجھے ایک لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے۔‘‘ لہٰذا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عیسیٰ ( علیہ السلام )کے مقابلے میں لوٹنے کے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘[1] اسی طرح اس نے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں امامت کی وصیت ثابت کرنے کے لیے قیاسِ فاسد کا راستہ اپنایا اور کہا: ’’ ہزاروں انبیاء تھے اور ہر نبی کا ایک وصی تھا اور علی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے وصی ہیں ۔‘‘ پھر کہا:’’محمد خاتم الانبیاء ہیں اور علی خاتم الاوصیاء ہیں ۔‘[2] جب اس کے پیروکاروں کے دلو ں میں یہ عقیدہ راسخ ہوگیا، تب اس نے اپنے منصوبہ بند مقصد کی طرف پیش قدمی کی، یعنی عوام کو خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت پر ابھارا اور یہ چیزبعض نفس پرستوں کے مزاج کے موافق ٹھہری، اس نے اپنے ہم نواؤں سے کہا: ’’بھلا بتاؤ! جو شخص وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی کا حق غصب کر کے امت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے، اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے؟‘‘ اس کے بعد کہا: ’’عثمان ( رضی اللہ عنہ ) نے خلافت پر ناحق قبضہ کرلیا ہے۔ حالانکہ علی رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول کے وصی ہیں ، اس کے لیے اٹھ کھڑے ہو اور اس تحریک کو آگے بڑھاؤ، اپنے امراء کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناؤ اور اس تحریک کو آگے بڑھانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اسلوب اختیار کرو، عوام کو اپنی طرف مائل کرلو گے اور سب کو اسی بات کی طرف بلاؤ۔‘‘[3] پھر اس نے اپنے کارندوں کو ملک کے مختلف شہروں میں پھیلا دیا اور دور دراز کے شہروں میں بدطینت قسم کے لوگوں سے خط وکتابت شروع کردی، جواباً انھوں نے بھی خط وکتابت کیا اور خفیہ طور پر لوگوں کو اپنے خیالات کی طرف دعوت دینے لگے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اسلوب اختیار کیا، دوسرے شہروں میں بسنے والے مفسدین کے نام اپنے گورنروں پر اعتراضات اور ان کے عیوب پر مشتمل خطوط بھیجنے لگے اور ان کے ساتھی بھی اسی طرح کی تحریریں ان کو روانہ کرتے، اور ہر ایک اپنے اپنے شہر میں اسے پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا۔ اسی طرح مخالفت
[1] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۷) اس آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد مکہ جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ وہاں آپ کو دوبارہ لائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر وارد ہے، چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور ۸ ھ میں فاتحانہ طور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دوبارہ تشریف لے گئے اور بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے، وہ مفہوم جو ابن سبا نے اس سے لیا ہے باطل ہے۔ (مترجم) [2] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۷)۔ [3] تاریخ الطبری (۵؍ ۳۴۸)۔