کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 623
چاہتے ہیں ، تو ڈاکٹر محمد امحزون کی کتاب ’’ تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ‘‘ اور ڈاکٹر سلیمان بن حمد العودۃ کی کتاب ’’ عبداللّٰه بن سباء و أثرہ فی أحداث الفتنۃ فی صدر الإسلام‘‘ کا مراجعہ کریں ۔[1]
۲۔ فتنہ کو متحرک کرنے میں عبداللہ بن سبا کا کردار:
جب خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری سالوں میں بعض ان اسباب و عوامل کے نتیجہ میں جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔ اسلامی معاشرہ کے افق پر اضطراب کی سرخیاں ظاہر ہونے لگیں تو بعض یہودیوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر، اور تقیہ کا اصول استعمال کرتے ہوئے فتنہ کے اسباب وعوامل کا استحصال کرنا چاہا اور اپنے ظہور کے موقع کی تلاش میں لگ گئے، انھیں میں سے ایک یہودی عبداللہ بن سبا بھی تھا جس کا لقب ابن السوداء تھا۔ ابن سبا کی شخصیت سے بہت گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بعض مبالغہ پرستوں نے اس فتنہ میں اس کے کردار کو خوب بھاری بھرکم انداز میں پیش کیا ہے۔[2] اور نہ ہی اس کے وجود میں شک کرنا، یافتنہ کی آگ لگانے میں اس کے نمایاں اور خطرناک کردار کو معمولی سبب مان کر اسے ہلکا جاننا درست ہے۔ اس لیے کہ وہاں فتنہ سامانی کے کئی ماحول پیدا کیے گئے تھے اور دیگر عوامل ا س کا ساتھ دے رہے تھے۔ ابن سبا کا کردار صرف یہ تھا کہ اس کی حسد پسندیہودی طبیعت اپنے مقصد کے حصول کے لیے چند خود ساختہ عقائد و خیالات کا سہارا لینے پر مجبور ہوئی اور اپنے گمشدہ مقصد اور مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے لیے انھیں عام کرنے لگا، اس کا مقصد اسلامی معاشرہ میں گھس کر اس کی وحدت واجتماعیت کو چاک کرنا تھا، وہ یہ چاہتا تھاکہ امت مسلمہ کے درمیان اختلاف کی بیج بو دے اور اس میں فتنہ کی آگ بھڑکادے۔ چنانچہ اس کی یہ کوشش شہادت عثمان رضی اللہ عنہ اور امت مسلمہ کے اختلاف و افتراق کے من جملہ اسباب میں سے ایک سبب ثابت ہوئی۔ [3]
عبداللہ بن سبا کے خود ساختہ عقائد کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے تمہیدیں تو سچی باندھیں لیکن ان سے غلط اصول اور فاسد نتائج مستنبط کیے اوریہی اصول ونتائج سخت مزاج کے حامل سادہ لوح لوگوں اور نفس پر ستوں میں رائج ہوگئے اور ان اصولوں کو عام کرنے کے لیے اس نے کئی رنگ اپنائے، اپنے ارد گرد رہنے والوں سے حقیقت پوشیدہ رکھی، یہاں تک کہ کافی لوگ اس کے ہم خیال ہوگئے۔
چنانچہ اس نے اپنے فاسد ذہن کے نتیجہ میں اپنی تاویلات کے ذریعے سے قرآن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا:
’’ایسے لوگوں پر تعجب ہے جو عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی دنیا میں رجعت یعنی واپسی کو مانتے ہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رجعت کا انکار کرتے ہیں ، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] اس موضوع پر اردو زبان میں ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی کی کتاب: ’’ حقیقت رافضیت‘‘ بہت مفید ہے۔ (مترجم)
[2] جیسا کہ سعید افغانی نے اپنی ایک کتاب ’’عائشۃ والسیاسۃ‘‘ میں کیا ہے۔
[3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍ ۳۲۷)۔