کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 622
اسی طرح ’’روضات الجنات‘‘ کے مولف نے ابن سبا کا ذکر صادق ومصدوق امام ہی کی زبان میں کیا ہے، جس میں انھو ں نے ابن سبا کے متہم بالکذب ہونے بلکہ جھوٹ بکنے اور راز کی باتوں اور تاویلات کو عام کرنے کی وجہ سے اس پر لعنت بھیجی ہے۔ [1]
ابن سبا کا وجود ایک تاریخي حقیقت ہے:
اس کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے، اس میں کوئی غموض وابہام نہیں ، سنی مصادر ہوں یا شیعی، قدیم ہوں یا جدید سب میں برابر اس کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح بیشتر مستشرقین جیسے جولوپس ویلسن ( J. Wellhausen ) [2] فان فولٹن،[3] لیفی ڈیلا فیڈا،[4] گولڈ زیہر،[5] رینا لڈ نکلسن(Reynold Necholson) [6] اور ڈیوڈ رینالڈ (Devid Reynold ) [7] وغیرہ بھی اس کے وجود کے قائل ہیں ۔ چند مستشرقین جیسے کایٹانی (Caetani)، برنارڈ لویس (Louis Bernhardt) [8]اور فرید لیندر وغیرہ کی نگاہ میں ابن سبا ایک مشکوک یا محض ایک خیالی شخصیت ہے اور اس کے بارے میں خود یہ لوگ کبھی ہاں اور کبھی نہیں کے درمیان متردد ہیں ۔ [9] بہرحال ان کی جوبھی تحقیق ہو ہمیں اس سے واسطہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے اپنے تاریخی واقعات میں ہم ان کو کچھ شمار نہیں کرتے۔
کوئی بھی شخص جو اہل سنت اور شیعہ کے قدیم وجدید مصادر کی چھان بین کرے گا اسے یقین ہوجائے گا کہ ابن سبا کا وجود ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تاریخی روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ عقائد کی کتابیں اس کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتی ہیں ۔ کتب حدیث، کتب رجال اور انساب، ادب اور لغت کی کتابیں اس کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اوربیشتر محققین ومحدثین اسی رخ پر چلے ہیں ۔
تحقیق وجستجو کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ سب سے پہلے مستشرقین نے ’’ابن سبا‘‘ کی شخصیت کو مشکوک بنایا ہے۔ پھر دور حاضر کے اکثر شیعہ نے اس خیال کو ہر ممکن طریقے سے تقویت دی، بلکہ بعض شیعوں نے تواس کاانکار ہی کردیا اور ان کے بعد دورحاضر کے بعض عرب محققین کو مستشرقین کی رائے بہت پسند آئی، جب کہ ان میں بعض حضرات شیعہ محدثین کی تحریروں سے متاثر ہوگئے۔ لیکن ان تمام لوگوں کے پاس اپنے شک اور انکار پر سوائے شک، نفس پرستی، وہم اور مفروضوں کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔[10]
اگر آپ ابن سبا کو ذکر کرنے والے شیعی، سنی اور استشراقی مراجع ومصادر کے بارے میں تفصیلی معلومات
[1] عبداللّٰہ بن سباء ؍ سلیمان العودۃ، ص (۶۲)۔
[2] الخوارج و الشیعہ، ص (۱۷۰)۔
[3] السیادۃ العربیۃ والشیعۃ والإسرائیلیات، ص (۸۰)۔
[4] تحقیق موافق الصحابۃ (۱؍ ۳۲۱)۔
[5] العقیدۃ والشریعۃ الإسلامیۃ، ص (۲۲۹)۔
[6] تاریخ العرب الأدبی فی الجاھلیۃ، ص (۲۳۵)۔
[7] عقائد الشیعۃ، ص (۵۸) ۔
[8] أصول الإسماعیلیۃ، ص (۸۶)۔
[9] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍ ۳۱۲)۔
[10] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍ ۳۱۲)۔