کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 621
نے اس کو حجت مانا ہے۔ معاً یہ بھی معلوم رہے کہ ابن عساکر نے ایسی بہت ساری روایات کو نقل کی ہیں جن میں عبداللہ بن سبا کا ذکر آیا ہے لیکن ان روایات کے راویوں میں کہیں بھی سیف بن عمر التمیمی کا نام نہیں ملتا اور امام البانی رحمہ اللہ نے ان میں بعض روایتوں کو سند اً صحیح قرار دیا ہے۔[1] سني کتب مصادر میں ابن سبا کا ذکر:… ابن حبیب[2] (م ۲۴۵ء موافق ۸۶۰ء ) نے ابن سبا کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور اس کو حبشی خاتون کا بیٹا قرار دیا ہے۔[3] اور امام ذہبی فرماتے ہیں : ’’ عبداللہ بن سبا متعصب زندیقوں میں سے ہے، گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔‘‘ [4] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’عبداللہ بن سبا متعصب زندیقوں میں سے ہے۔ اس کے پیروکاروں کو سبائی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں ، جب کہ آپ نے اپنے دور خلافت میں انھیں آگ میں جلادیا تھا۔‘‘ [5] شیعي کتب مراجع و مصادر میں ابن سبا کا ذکر: …شیعہ عالم الکشی نے محمد بن قولویہ سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے سعد بن عبداللہ نے بیان کیا اور اس نے کہا کہ مجھ سے یعقوب بن یزید اور محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا اور ان دونوں نے علی بن مہزیار سے روایت کیا، اس نے فضالہ بن ایوب ازدی سے روایت کیا اور اس نے ابان بن عثمان سے کہ میں نے ابو عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو، اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ اللہ کی قسم! امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اللہ کے اطاعت شعار بند ے تھے، بربادی ہو اس کی جس نے ہم پر جھوٹ باندھا، ایک جماعت ایسی ہے جو ہمارے بارے میں ایسی باتیں کہتی ہے جسے ہم سوچتے بھی نہیں ، اس سے ہم اللہ کے ہاں اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ‘‘[6] یہ ر وایت شیعوں کے نزدیک سنداً بالکل صحیح ہے۔ [7] دوسرے شیعی مورخ القمی نے ’’کتاب الخصال‘‘ میں اسی روایت کو دوسری موصول سند سے نقل کیا ہے۔
[1] دعاوی الإنقاذ للتاریخ الإسلامی ؍ العودۃ، شیخ البانی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تمام سندوں کو اس میں مصنف نے ذکر کیا ہے۔ [2] تاریخ بغداد (۲؍ ۲۷۷)۔ [3] عبداللہ بن سبا ؍ العودۃ، ص (۵۳) المحبّر ؍ ابن حبیب، ص(۳۰۸)۔ [4] میزان الاعتدال ؍ الذہبی (۲؍ ۴۲۶)۔ [5] لسان المیزان ؍ ابن حجر (۳؍ ۳۶۰)۔ [6] رجال الکشی (۱؍ ۳۲۴)۔ [7] عبداللّٰہ بن سباء الحقیقۃ المجہولۃ للشیعہ ؍ محمد علی المعلم، ص (۳۰)۔