کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 619
مال سے چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹوں گا۔[1]
تعزیرات
۱۔ ہاتھ سے مارنا:
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ طواف میں تھے، دورانِ طواف ایک آدمی نے عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی او رکہا کہ اے امیر المومنین! علی بن ابی طالب سے مجھے بدلہ دلوائیے، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: انھوں نے میری آنکھوں پر طمانچہ مارا ہے، عمر رضی اللہ عنہ ٹھہر گئے یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ آپ تک آپہنچے، آپ نے پوچھا: اے ابوالحسن! کیا تم نے اس کی آنکھ پر طمانچہ مارا ہے؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں ، اے امیرالمومنین! عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں ؟ آپ نے جواب دیا اس لیے کہ میں نے دیکھا یہ شخص دوران طواف مومنو ں کی عورتوں پر دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوالحسن! تو نے اچھا کیا۔[2]
۲۔ حدشرعی کی تنفیذ میں مزید کوڑے:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اکثر وبیشتر ایسی ہی تادیبی کارروائی کرتے تھے، چنانچہ آپ نے نجاشی شاعر کو جس نے رمضان میں شراب پی لی تھی کوڑے لگائے او رکہا: میں نے تم کو بیس کوڑے زیادہ اس لیے لگائے ہیں کہ تم نے اللہ کے سامنے جرأت کی اور رمضان میں یہ جرم کیا۔[3]
۳۔ قید کرنا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کبھی کبھار مجرم کو قید کے ذریعے سے بھی تعزیری سزا دیتے تھے، جیسے کہ آپ نے رمضان میں شراب پینے والے نجاشی شاعر کے ساتھ کیا تھا۔[4]
[1] المغنی (۸؍۲۷۹)۔
[2] الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ (۲؍۱۶۵)۔
[3] موسوعۃ فقہ علی بن أبی طالب ؍ قلعجی ص (۱۵۳)۔
[4] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۰؍۳۶)۔