کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 615
روزے کے احکام
۱۔ ایک عادل مسلمان کی رویت ہلال سے رمضان کے روزے کا ثبوت:
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نزدیک تنہاایک عادل مسلمان کی خبر سے رویت ہلال ثابت ہوجاتی ہے اور لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہوجاتا ہے۔ فاطمہ بنت حسین کا بیان ہے کہ ایک آدمی نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے رویت ہلال کی گواہی دی تو آپ نے روزہ رکھا اور میرا خیال ہے کہ آپ نے دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔[1] آپ کا یہ حکم اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہے:
((صَوْمُوْا لِرَؤْیَتَہٖ وَ اَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتَہٖ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَـلَاثِیْنَ یَوْمًا۔))[2]
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو، پس اگر بادل چھا جائیں تو شعبان کے تیس دن پورے کرو۔‘‘
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں چند ایک مسلمانوں کی رویت مراد ہے، ہر فرد کی رویت شرط نہیں ہے بلکہ اگر دو عادل یا صحیح مسلک کے مطابق ایک عادل مسلمان رویت ہلال کی شہادت دے تو تمام مسلمانوں کے لیے روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔ رہا روزہ توڑنے کا مسئلہ، تو اس سلسلہ میں ابوثور کے علاوہ بقیہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے لیے ایک عادل کی گواہی کافی نہیں ہوگی، بلکہ ہلال شوال کے لیے دو عادل مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے، البتہ ابوثور ایک عادل کی گواہی پر بھی اسے جائز مانتے ہیں ۔[3]
۲۔ جنبی کا روزہ:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک جنبی آدمی کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے، جنبی کے روزہ رکھنے کامطلب ہے کہ وہ غسل جنابت کو صبح ہونے تک مؤخر کرسکتاہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حارث کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا:اگر آدمی حالت جنابت میں صبح کرے اور روزہ رکھناچاہے تو روزہ رکھ سکتا ہے۔[4] اس کی دلیل عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں ہوتے اور فجر کا وقت ہوجاتا، پھر آپ غسل کرتے اور روزہ رکھتے۔[5]
۳۔ انتہائی ضعیف روزہ توڑ سکتا ہے:
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اللہ کے فرمان: ﴿ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ﴾ (البقرۃ:۱۸۴) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس شخص کو ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی رخصت دی گئی ہے اس سے بہت بوڑھا شخص مراد ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔[6]
[1] المجموع (۶؍۳۱۵) المغنی (۳؍۹۰) موسوعۃ فقہ الإمام علی ص (۴۲۰)۔
[2] صحیح مسلم (۲؍۷۵۹)۔
[3] شرح صحیح مسلم (۷؍۱۹۰)۔
[4] مصنف ابن أبی شیبۃ (۳؍۸۱) المغنی (۱؍۱۳۷)۔
[5] صحیح البخاری (۲؍۲۳۲)۔
[6] تفسیر الطبری (۲؍۸۱)۔