کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 610
حق فیصلہ کرنے سے مرعوب نہ کرے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور تم بھی اس کے فیصلوں پر گہری نگاہ رکھو، اس کی تنخواہ اس لیے زیادہ مقرر کرو کہ اسے رشوت خوری کی لت نہ پڑے اور اسے کم سے کم لوگوں سے واسطہ پڑے، اس کی قدر و منزلت تمھارے نزدیک اتنی ہونی چاہیے کہ کوئی شخص اس کے خلاف تمھارے کان بھرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ [1]
اس خط میں مزید تحریر فرماتے ہیں : ’’اللہ کے ساتھ انصاف کرو، اپنے ساتھ اپنے گھر و خاندان کے مخصوص افراد اور رعایا میں جس سے تمھیں خاص لگاؤ ہو اس کے ساتھ بھی انصاف سے کام لو، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ظالم ہو اور جو شخص اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو بندوں کی طرف سے اللہ اس کا مدمقابل ہوجاتا ہے اور اللہ جس کا مدمقابل ہوجاتا ہے اس کے تمام دلائل اور تدبیروں کو باطل کردیتا ہے۔ ایسا انسان اللہ سے برسرپیکار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ظلم سے باز آجائے یا توبہ کرلے، اللہ کی نعمتوں کو چھیننے اور اس کے فوری عذاب کو دعوت دینے کے لیے ظلم سے بدتر کوئی گناہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ مظلوموں کی دعا سننے والا ہے اور ظالموں پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔‘‘[2]
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مشہور قاضی
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورحکومت سے پہلے کے جن قاضیوں کو منصب قضاء کے مناسب سمجھا انھیں اپنے منصب پر باقی رکھا اور مزید چند دیگر قاضیوں و والیانِ ریاست کا بھی تقرر کیا۔[3] آپ کے اہم قاضی اور والی یہ ہیں :
۱۔ شریح بن حارث ۲۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
۳۔ عبید اللہ بن مسعود ۴۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ
۵۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ ۶۔ عمارہ بن شہاب رضی اللہ عنہ
۷۔ قثم بن عباس رضی اللہ عنہما ۸۔ جعدہ بن ہبیرہ مخزومی
۹۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۱۰۔ سعید بن نمران ہمدانی
۱۱۔ عبیدۃ السلمانی ۱۲۔ محمد بن یزید بن خلیدہ الشیبانی
(۳)…امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فقاہت
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ دینی علم و بصیرت کا سمند رتھے، آپ نے عبادات کے احکام بتانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اگر ان احکامات کویکجا کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں درکار ہوں گی۔[4] میں اس کتاب میں بطور مثال صرف چند احکام کا مجموعہ ذکر کروں گا:
[1] شرح نہج البلاغۃ بحوالہ نظام الحکم فی الإسلام ؍ القاسمی (۲؍۱۰۳)۔
[2] شرح نہج البلاغۃ بحوالہ نظام الحکم فی الإسلام ؍ القاسمی (۲؍۵۵۹)۔
[3] القضاء فی صدر الإسلام ؍ جبر محمود ص (۲۳۹)۔
[4] اس ضمن میں دو کتابیں قابل ذکر ہیں (۱) موسوعۃ فقہ علی بن أبی طالب ؍ محمد قلعجی (۲) فقہ الإمام علی؍ أحمد طہٰ۔