کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 61
مصالحت پر اتفاق کر لیا اور کافی ایمان افروز مناظر صحابہ نے دیکھے اور بالآخر طویل مکالمے کے بعد صلح حدیبیہ اپنے انجام کو پہنچی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، سیرت ابوبکر، ص: ۱۱۶) غزوۂ خیبر، سریہ نجد اور بنی فزارہ میں ۱۔ غزوہ خیبر میں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا محاصرہ کیا اور ان سے جنگ کی تیاری کی۔ سب سے پہلے قائد جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے بعض قلعوں کی طرف روانہ فرمایا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے قتال کیا، لیکن وہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا آپ نے بھی قتال کیا اور فتح حاصل نہ ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا: کل میں پرچم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ ورسول سے محبت رکھتا ہے، تو وہ شخص علی رضی اللہ عنہ تھے۔[1] بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ کھجور کے باغات کاٹ دیے جائیں تاکہ اس سے یہود کمزور پڑ جائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو پسند کر لیا، مسلمان جلدی جلدی درخت کاٹنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو درخت نہ کاٹنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لیے بہر صورت نقصان ہے، چاہے خیبر زبردستی فتح ہو یا صلح سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا مشورہ قبول فرمایا اور مسلمانوں کو کھجور کاٹنے سے منع فرما دیا، پھر مسلمان اس سے رک گئے۔[2] ۲۔ سریہ نجد میں : ابن سعد نے طبقات میں ایاس بن سلمہ سے روایت کی، انھوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نجد کی طرف روانہ کیا اور انھیں ہم پر امیر مقرر کیا، ہم نے ہوازن کے کچھ لوگوں پر شب خون مارا، میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھر والوں کو قتل کیا اور ہمارا شعار ’’أَمِتْ أَمِتْ‘‘ تھا۔[3] ۳۔ سریہ بنی فزارہ میں : امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے ایاس بن سلمہ کے طریق سے روایت کی وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہمارا امیر مقرر فرمایا، ہم نے ان کی قیادت میں بنو فزارہ سے جہاد کیا، جب ہم چشمے کے پاس پہنچے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے ہم نے وہاں رات کو قیام کیا، جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو آپ نے ہمیں حملہ کرنے کا حکم فرمایا اور ہم نے ان لوگوں سے قتال کیا، جو ہم سے قبل چشمے پر گزرے تھے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے پہاڑ کی جانب کچھ لوگوں کو دیکھا جن میں خواتین اور بچے تھے، میں نے تیر چلایا جو پہاڑ اور ان کے درمیان گرا، میں ان سب کو قید کر کے ابوبکر کے پاس لایا اور چشمے پر
[1] فتوح البلدان: ۱/۲۶۔ [2] المغازی للواقدی: ۲/۶۴۴۔ [3] الطبقات الکبری: ۱/۱۲۴، ابوداود: الجہاد، باب فی البیات: ۳/۴۳۔