کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 609
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خراج کو محض ایک محصول کی حیثیت سے نہیں بلکہ مکمل ایک اقتصادی مسئلہ کی حیثیت سے دیکھتے تھے، کیونکہ اس وقت خراج ادارہ مالیات میں اساسی آمدنی کی حیثیت رکھتا تھا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ ہر اعتبار سے اپنے گورنروں کی سخت نگرانی کرتے تھے اور خراج و دیگر مالیاتی شعبے ان حساس شعبوں میں سے ایک تھے جس پر آپ کافی دقیق نظر رکھتے تھے، مخبروں اور خفیہ ایجنسی کے کارندوں کو ریاستوں میں بھیجتے رہتے تھے کہ وہ وہاں کے حکمرانوں کے حالات سے آپ کو خبردار رکھیں ۔[1]ریاست کے گورنروں کو اپنی ریاست اور وہاں کے بیت المال کی آمدنی کے اخراجات کے مکمل اختیارات حاصل تھے چنانچہ خلافت راشدہ کے عہد میں جو لوگ براہ راست بیت المال کے ذمہ دار اعلیٰ ہوتے اور اسی طرح جو لوگ خراج کی آمدنی کے ذمہ دار ہوتے عموماً یہ لوگ اپنی صواب دید سے ریاست کے مفاد میں اور اسلامی کاموں میں اسے خرچ کرتے تھے، مثلاً اس آمدنی کو جہاد کے لیے ہتھیار سازی، سواریوں کی خریداری اور فوجیوں کی تنخواہوں وغیرہ میں استعمال کرتے تھے، اسی طرح ریاست کے سرکاری ملازمین اور اعلیٰ عہدہ داروں کی تنخواہیں بھی خود ہی تقسیم کرتے تھے۔[2] صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات حسب ضرورت اپنی ریاستی آمدنی ہی سے ریاست کے ضروری مقامات پر پل تعمیرکرواتے، تالاب، چشمے اور نہر کھدواتے۔[3]
(۲)… محکمہ قضاء
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالی تو اس کے ساتھ ہی وہ فتنے چمٹے رہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل اور اس کے بعد کے ناگفتہ بہ حالات و حوادث کے نتیجہ میں رونما ہوئے، یہ ایسے سنگین حوادث تھے جنھوں نے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا تھا اور انھیں ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا، لہٰذا اختلافات کی خلیج پاٹنے کے لیے ان حوادث کا مقابلہ کرنا آپ کی سب سے اہم مصروفیت تھی، تاہم آپ کے عہد میں یہ تمام تر حوادث اور خون ریز معرکے آپ کو قضاء و عدل کاخصوصی اہتمام کرنے اور اسے منظم کرنے سے نہ روک سکے۔ اس کی دلیل آپ کا وہ خط ہے جسے آپ نے اپنے مصری گورنر اشتر نخعی کے نام بھیجا تھا، اس میں آپ نے لکھا تھا: ’’لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایسے شخص کو مقرر کرو جو تمھارے نزدیک سب سے معزز ہو، کہ جس کے فیصلہ کو لوگ بلاچوں چراں مان لیں ، اور کسی میں اس پر اعتراض کرنے کی جرأت نہ ہو، لغزش ہوجانے پر وہ سرکشی نہ کرے، حق کی معرفت کے بعد اسے تسلیم کرتے ہوئے شکستہ خاطر نہ ہو، وہ طمع سے پاک ہو، وسیع النظر کو پاتے ہوئے اپنی کم فہمی پر اکتفا نہ کرے، اعتراضات کی جگہوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو، دلائل پر نگاہ رکھنے میں کامل ہو، فریقین کے دلائل سے گھبرائے نہیں ، حقائق کی جاں کاری اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لیے نہایت سنجیدہ ہو، کسی کی سفارش اور کسی کا عہدہ یا شرف اسے
[1] الولایۃ علی البلدان (۲؍۹۸) النظریات المالیۃ فی الإسلام ص (۱۵۵)۔
[2] التراتیب الإداریۃ ؍ الکتانی (۱؍۳۹۳)۔
[3] الولایۃ علی البلدان (۲؍۸)۔