کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 608
چوتھا باب:
امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد میں ادارۂ مالیات، محکمہ قضاء اور آپ کے بعض فقہی اجتہادات
(۱)… ادارۂ مالیات
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسلامی سلطنت کی سابقہ مالی سیاست میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں واقع ہوئی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ عہد صدیقی میں عطا و وظائف میں مساوات کا جو نظام نافذ تھا آپ نے اس کو ترجیح دی[1] اور کسی کو کسی پر برتری نہ دی، موالی کو بھی انھیں عطایا سے نوازا جن سے سادات کو نوازا۔[2]
بعض شہروں میں خراج کی ذمہ داری خود وہاں کے حکمرانوں کے سر ہوتی تھی، چنانچہ مصر کے جنرل گورنر قیس بن عبادہ وہاں کے خراج کے ذمہ دار تھے، اسی طرح علی رضی اللہ عنہ نے جب اشتر نخعی کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا تو اس کو جن باتوں کی خصوصی ہدایات تھیں ان میں یہ چیز بھی شامل تھی کہ گورنر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ وہ خراج کے بارے میں بھی اس ڈھنگ سے ذمہ داری نبھائے گا جو خراج دہندگان کے مناسب اور قابل عمل ہو، کیونکہ خراج اور خراج دہندگان کی درستگی و خوشحالی میں دوسروں کی درستگی و خوشحالی مضمر ہے۔ خراج اور خراج دہندگان ہی پر عوامی آمدنی کا تکیہ ہے اور سنو! تمھاری نگاہ خراج کی وصول یابی سے زیادہ انھیں آباد کرنے اور اسے قابل زراعت بنانے پر ہو، اس لیے کہ اسے زرخیز اور قابل زراعت بنانے ہی پر خراج کی آمدنی میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو شخص زمین کو زرخیز اور قابل زراعت بنائے بغیر خراج کامطالبہ کرتا ہے وہ شہروں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے اور بندوں کو ہلاک کردیتا ہے، اس کا معاملہ بس معمولی وقت کے لیے ٹھیک ٹھاک رہ سکتا ہے۔ اگر خراج دہندگان تم سے کسی بوجھ یا زمین کی خرابی کی شکایت کریں یا پانی کی سیرابی کی کمی بتائیں ، یا سیلاب زدگی یا خشک سالی اور قحط کو کم پیداوار کا سبب بتائیں تو تم اپنی صواب دید پر کہ جس سے ان کا معاملہ درست رہ سکے ان سے خراج کم کردو، زرخیز و قابل کاشت زمین وہ بوجھ اٹھائے گی جو تم اس سے اٹھواؤ گے، مالکان زمین کی بدحالی سے زمین کی صلاحیت بھی خراب ہوجاتی ہے اور زمین اپنے مالکان کو بدحال اس وقت کرتی ہے جب حکمراں اپنے پوری رعایا پر حرص و طمع کی نگاہ ڈالنے لگتے ہیں اور زندگی کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور عبرتوں سے آنکھیں موند لیتے ہیں ۔[3]
[1] الاستیعاب (۳؍۱۱)۔
[2] علی بن أبی طالب ؍ د ۔علی شرقی ص (۶۶)۔
[3] الولایۃ علی البلدان (۲؍۱۵۳-۱۶۳)۔