کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 607
گوشت کہہ کر ہڈی اور چربی اتار کر گوشت نہ بیچو)۔ [1]
زادان کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ بازار میں تنہا چلتے تھے، بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتے، کمزور کی مدد کرتے، خرید و فروخت کرنے والوں اور سبزی فروشوں کے پاس سے گزرتے، انھیں قرآن کی یہ آیت پڑھ کر سناتے:
﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ﴾ (القصص:۸۳)
’’یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا۔‘‘
پھر فرماتے: یہ آیت کریمہ عدل پرور اور تواضع پسند حکمرانوں اور تمام اصحاب مقدرت لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[2]
خلال اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ بازار جاتے اور فرماتے: اے بازار کے لوگو! اللہ سے ڈرو، خاص طور سے قسم کھانے سے بچو کیونکہ قسم سامان کو فروخت ضرور کرا دیتی ہے لیکن برکت کو ختم کردیتی ہے، تاجر تو فاجر ہوتا ہے، سوائے اس تاجر کے جو لینے اور دینے میں حق کو ترجیح دے، والسلام علیکم، پھر لوٹ جاتے، کچھ دیر بعد پھر واپس آتے اور یہی باتیں دہراتے۔[3]
[1] فضائل الصحابۃ (۹۳۸) ۲؍۶۸۸ اس کی سند صحیح ہے۔ اور بعض روایات میں لا تنقحوا وارد ہے دیکھئے: الطبقات لابن سعد (۳؍۲۸) اور مصنف ابن أبی شیبۃ (۷؍۳۰۸) تنقیح العظام کا مطلب ہے ہڈی سے مغز الگ کردینا جب اونٹنی کی چربی کم ہوجاتی تو اہل عرب کہتے ہیں ’’تَنْقُحُ شَحْمُ النَّاقَۃِ‘‘ یہاں گوشت کی تنقیح کا مطلب شاید یہ ہے کہ اس ہڈی کا مغز نکال کر نہ فروخت کرو جس پر گوشت چڑھا ہوا ہو، دیکھئے: لسان العرب (۲؍۶۲۴) یہاں لا تنقحوا اللحم وارد ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گوشت اتار کر صرف ہڈی نہ بیچا کرو یا یہ کہ چربی اتار کر گوشت مت بیچو۔ اور یہی مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ’’تنقی‘‘ کا اصل معنی صاف کرنا اور چھیلنا ہوتا ہے۔ (مترجم)
[2] الدر المنثور ؍السیوطی (۶؍۴۴۴) البدایۃ والنہایۃ (۸؍۵)۔
[3] السنۃ ؍ الخلال ص (۳۵۲) بتحقیق د؍عطیہ الزہرانی۔