کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 605
’’جس نے مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کو دوبارہ کیا تو اس نے محمد کی لائی ہوئی شریعت کا انکار کیا۔‘‘
چنانچہ اسی تربیت نبوی کی حرارت تھی کہ جب آپ امیر المومنین بنائے گئے تو آپ نے ابوالہیاج اسدی کو اسی مہم پر روانہ کیا او ران سے کہا: میں تم کو اسی مہم پر بھیج رہا ہوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا، جاؤ تم کسی بت کو نہ چھوڑنا، سب کو ڈھا دینا، کسی اونچی قبر کو نہ چھوڑنا، اسے ضرور برابر کردینا۔[1]
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کواکب پرستی کے عقیدہ کو باطل قرار دیتے ہیں :
جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے جنگ کے لیے سفر پر نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک نجومی آپ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! قمر در عقرب ہے، اس لیے آپ سفر نہ کریں ، اگر قمر در عقرب کے ہوتے ہوئے آپ سفر کرلیں گے تو آپ کے ساتھی شکست کھاجائیں گے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ پر توکل و مکمل اعتماد اور تمھارے عقیدہ کو جھٹلاتے ہوئے ضرور جنگ پر جاؤں گا، چنانچہ آپ نے سفر کیا اور اللہ نے اس پر برکت عطا فرمائی اور بیشتر خوارج قتل کیے گئے۔[2]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں مبالغہ کرنے اور الوہیت کا درجہ دینے والوں کو آپ نے سزا دی:
عبداللہ بن شریک العامری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ یہاں مسجد کے دروازہ پر کچھ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپ کو اپنا رب مانتی ہے۔ آپ نے ان لوگوں کو بلوایا اورکہا: تمھارا ستیاناس ہو، تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہمارے رب، خالق اور رازق ہیں ۔ آپ نے فرمایا: تمھارا برا ہو؟ سنو! میں بھی تمھاری طرح ایک انسان ہوں ، تمھاری طرح کھاتا پیتا ہوں ، اگر میں نے اللہ کی اطاعت کی تو وہ مجھے ان شاء اللہ ثواب سے نوازے گا اور اگر میں نے اس کی نافرمانی کی تو مجھے ڈر ہے کہ وہ عذاب دے گا۔ اے لوگو! تم اللہ سے ڈرو اوراپنی بات سے باز آجاؤ، لیکن انھوں نے آپ کی ایک نہ سنی اور دوسرے دن صبح کو آپ کے پاس آئے ، قنبر بھی آئے اور کہنے لگے: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، یہ لوگ آپ کے پاس سے واپس گئے، اور وہی بات کہہ رہے تھے جو ان کا پہلے عقیدہ تھا، آپ نے فرمایا: انھیں بلاؤ، لیکن انھوں نے پھروہی جواب دیا، چنانچہ جب تیسرا دن ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر تم اب بھی اپنے عقیدہ سے باز نہیں آتے تو تمھیں بہت بری موت ماروں گا۔ لیکن انھوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، پھر آپ نے اپنی رہائش گاہ اور مسجد کے درمیان ایک گڑھا کھدوایا، اس میں آگ جلائی اور کہا: اگر تم لوگ اپنے عقیدہ سے باز آجاؤ تو ٹھیک ورنہ تمھیں اس میں ڈال دوں گا۔ پھر بھی انھوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، چنانچہ آپ نے انھیں اس آگ میں
[1] صحیح مسلم ؍ الجنائز (۲؍۶۶۶)۔
[2] مجموع الفتاوٰی (۳۵؍۱۷۹) ، البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۸۸)۔