کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 604
دیتا ہے اور گناہ ہی عذاب کا سبب ہوتے ہیں ، لہٰذا جب گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں تو عذاب بھی نہیں آتا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ہَمِّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا وَ رَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔))[1]
’’جس نے استغفار کو لازم کر لیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر رنج سے نجات پانے اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ آسان کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے روزی دے گا کہ جس کا اس نے گمان بھی نہ کیا ہوگا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ﴾ (الاسراء:۱۱۰)
’’کہہ دے اللہ کو پکارو، یا رحمان کو پکارو، تم جس کو بھی پکارو گے سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَّ تِسْعِیْنَ اِسْمًا۔ مِئَۃٌ إِلَّا وَاحِدَۃٌ۔ مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔))[2]
’’بے شک اللہ کے ننانوے نام ہیں -سو میں ایک کم- جس نے ان کا احصاء کرلیا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اللہ کی صفات کے بارے میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
(( اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعَنْفِ۔))[3]
’’اللہ تعالیٰ نرم دل ہے، نرمی کو پسند کرتاہے، اور نرم دلی برتنے پر وہ کچھ دیتا ہے جو سخت دلی پر نہیں دیتا۔‘‘
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو جاہلیت کے نشانات مٹانے کا حرص:
سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا:تم میں کون ایسا ہے جو مدینہ جائے اور وہاں جتنے بت ہیں انھیں توڑ دے، اونچی قبروں کو برابر کردے اور تصاویر کو مسخ کردے؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جارہا ہوں ، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ، چنانچہ آپ گئے پھر لوٹ کر آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے کسی بت کو نہیں چھوڑا، سب کو توڑ دیا، ساری اونچی قبروں کو برابر کردیا اور تصویروں کو مسخ کردیا۔ پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ عَادَ لِصَنْعِہٖ شَیْئٌ مِنْ ہٰذَا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُ نْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔))[4]
[1] سنن ابن ماجہ ؍حدیث نمبر (۳۸۱۹) سنن ابی داؤد؍ حدیث نمبر (۱۵۱۸)۔
[2] صحیح البخاری؍ الدعوات ؍ حدیث نمبر (۶۴۱۰)۔
[3] مسند أحمد (۲؍۱۷۳) احمد شاکر فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔
[4] مسند احمد (۲؍۸۷ حدیث نمبر) (۶۵۷) الرسالۃ، احمد شاکر فرماتے ہیں : اس کی سند حسن ہے۔