کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 603
(۱) آپ نے فرمایا: ’’کوئی انسان اگر امید لگائے تو صرف اپنے رب سے اور ڈرے تو صرف اپنے گناہ سے۔‘‘[1]
آپ کا یہ قول کتنا زریں ، بلیغ اور کامل ہے، یہ سچ ہے کہ امید صرف خیر کی کی جاتی ہے اور ڈر صرف مصائب و تکالیف سے لاحق ہوتا ہے اور تکالیف و مصائب بندے کے گناہوں کے سبب سے لاحق ہوتے ہیں :
﴿ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ﴾ (الشورٰی: ۳۰)
’’اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے ۔‘‘
امید لگانے والا خیر کی امید لگاتا ہے اور مصائب و مشکلات کا ازالہ چاہتا ہے اور یہ دونوں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں نعمتوں کا عطا کرنے والا اللہ ہے اور مصائب کو دور کرنے والا بھی اللہ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ﴾ (یونس:۱۰۷)
’’اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ﴿٨١﴾ كَلَّا ۚ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا﴾ (مریم:۸۱-۸۲)
’’اور انھوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے، تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں ۔ہرگز ایسا نہ ہوگا، عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور ان کے خلاف مد مقابل ہوں گے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ﴾ (ہود:۱۲۳)…’’اس (اللہ) کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴾ (الرعد:۳۰)
’’کہہ دے وہی میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔‘‘
پس اللہ کا واضح اعلان ہے کہ استغفار کرنے والے کو وہ عذاب نہیں دے گا، اس لیے کہ استغفار گناہوں کو دھو
[1] الفتاوٰی (۸؍۱۰۱)۔