کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 600
’’اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے۔‘‘
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کے اساسی مآخذ
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت میں قرآن، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور شیخین (ابوبکر، و عمر رضی اللہ عنہما ) کی اقتدا کو اساسی مآخذ کی حیثیت حاصل تھی۔
۱۔ پہلا ماخذ:… قرآن مجید:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴾ (النساء:۱۰۵)
’’بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔‘‘
پس اللہ کا یہ فرمان بتاتا ہے کہ قرآن، انسانی نظام حیات سے متعلق مکمل شرعی احکامات پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو سلطنت وحکومت کی جن اساسیات کی ضرورت ہے وہ سب کچھ اس میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اپنے دین پر جمے رہو، اپنے نبی کی سنت کی اتباع کرتے رہو اور ان کے بتائے ہوئے طریقہ کو مکمل طور پر اپناؤ اور اپنے مشکل معاملات کا حل قرآن میں ڈھونڈو، پھر قرآن جس چیز کی رہنمائی کرے اس سے چمٹ جاؤ، اور وہ جس کی تردید کرے اسے دور پھینک دو۔[1]
۲۔ دوسرا ماخذ:… سنت مطہرہ:
سنت مطہرہ دوسرا بنیادی ماخذ ہے جس سے اسلامی دستور کی ساخت عمل میں آتی ہے اور اسی سے قرآنی احکامات و تعلیمات کے تطبیقی و تنفیذی حدود اربعہ کی معرفت ہوتی ہے۔[2] اس سلسلے میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں کی اقتداء کرو، کیونکہ وہی سب سے بہتر طور طریقے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت کو اختیار کرو، کیونکہ وہی سب سے افضل سنت ہے۔[3]
۳۔ پیش رو خلفائے راشدین کی اقتداء:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( اِقْتَدُوْا بِالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ: أَبِیْ بَکْرٍ وَّ عُمَرَ۔))[4]
’’میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء کرو۔‘‘
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۴۶)۔
[2] فقہ التمکین فی القرآن الکریم ؍الصلابی ص (۴۳۲)۔
[3] البدایۃ و النہایۃ (۷؍۳۱۹)۔
[4] صحیح سنن الترمذی (۳؍۲۰۰)۔