کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 60
پھر کہا: کیا تم میں ابن خطاب ہیں ؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں ؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں ؟
جب جواب نہیں ملا، تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: یہ سب کے سب قتل کیے جا چکے ہیں …!![1]
مشرکین کے لیڈر ابوسفیان کو اس حقیقت کا اعتراف ویقین تھا کہ اسلام کے ستون و اساس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔[2]
اس دوران جنگ جاری رہی اور بالآخر کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں کفار پھر واپس نہ آجائیں ۔ آپ نے صحابہ سے کہا: کون ان کے تعاقب میں نکلے گا؟ ستر صحابہ کرام تیار ہوئے، ان میں ابوبکر وزبیر رضی اللہ عنہما تھے۔[3]
صلح حدیبیہ میں
ذوالقعدہ ۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے، اپنے ساتھ ہدی کے جانور لیے اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ جنگ کی خاطر نہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ میں سے اپنا جاسوس حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ فرمایا، اس نے آکر خبر دی کہ مکہ والے آپ کو کعبہ سے روکنے کے لیے جمع ہو گئے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: لوگو ہمیں مشورہ دو ،کیا کریں ؟
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے ہیں کسی کو قتل کرنا یا جنگ کرنا مقصود نہیں ہے لہٰذا آپ زیارت کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں اس سے روکے گا ہم اس سے قتال کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان جاری کر دیا: اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔
قریش کے لوگ غضبناک ہو گئے اور قسم کھا لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ پھر اہل مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین گفتگو اس سلسلہ میں شروع ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ اہل مکہ صلہ رحمی سے متعلق جس چیز کا مطالبہ کریں گے اس کو قبول کروں گا۔[4]
بالآخر مصالحانہ گفتگو کا آغاز ہوا اور سہیل بن عمر کی قیادت میں مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
[1] فتح الباری: ۶/۱۸۸، ۷/۴۰۵۔
[2] مواقف الصدیق مع النبی فی المدینۃ: د/ عاطف لماضہ ۲۸۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی اپنے تو اپنے اعدائے اسلام بھی مانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں پہلا مقام ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے اور پھر دوسرا عمر رضی اللہ عنہ کا۔ (مترجم)
[3] مسلم: ۲۴۱۸۔
[4] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: ص۱۳۶۔