کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 599
کا فیضان ہو جاتا ہے، اسی لیے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کثرت دعا اور اللہ سے اپنے بہتر تعلق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے، اللہ کا فرمان ہے: ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴾ (غافر:۶۰) ’’اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔‘‘ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بیشتر اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے اور مدد طلب کرتے ہوئے دیکھا تھا، اس لیے اس عبادت کو مکمل طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے کی تڑپ آپ کے اندر ہمیشہ رہتی اور کوشش کرتے کہ انھی الفاظ اور صیغوں میں دعا و تسبیح کریں جو نبی کی تعلیم کے مطابق اور آپ کو پسند ہوں ۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ((اِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلْیَرُدَّ عَلَیْہِ مَنْ حَوْلَہٗ، یَرْحَمُکَ اللّٰہُ وَلَیُرَّدَ عَلَیْہِ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔))[1] ’’جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہے اور جو اس کے پاس ہو وہ جواب میں ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہ‘‘ کہے اور چھینکنے والا اس کے جواب میں ’’یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِح بَالَکُمْ‘‘ کہے۔‘‘ ابن اعبد کا بیان ہے کہ مجھ سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابن اعبد! کیا تم کھانے کا حق جانتے ہو؟ میں نے کہا: اے ابن ابی طالب اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم یہ کہہ لیا کرو، ((بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْمَا رَزَقْتَنَا۔)) اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ، اے اللہ تو نے ہمیں جو روزی دی ہے اس میں برکت عطا فرما، پھر آپ نے فرمایا: جب کھانے سے فارغ ہو جاؤ تو اس کا شکر کیا ہے، کیا تمھیں معلوم ہے؟ میں نے کہا: اس کا شکر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم یہ دعا پڑھو: ((أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا۔))[2] تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔ آپ سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے: ((رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔))[3]
[1] سنن ابن ماجہ (۲؍۱۲۲۴) صحیح سنن ابن ماجہ ؍البانی (۲؍۳۰۳)۔ [2] مسند احمد (۲؍۳۲۹) اس کی سند حسن ہے۔ (تحقیق احمد شاکر) [3] فقہ علی بن أبی طالب ؍ قلعجی ص (۲۵۱)۔