کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 598
بندگی، صبر اور خلوص و للہیت:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی عبادت کے ایک جامع مفہوم پرڈٹے رہے، نماز تہجد کی ادائیگی میں آپ ممتاز رہے اور آپ کا شمار ان تہجدگزاروں میں ہوا جن کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:
﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾ (السجدۃ:۱۶)
’’ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں ، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
ایک مرتبہ اشترنخعی امیر المومنین علی بن ابی طالب کے پاس گیا، رات کا وقت تھا اور آپ نماز میں مشغول تھے، اشتر علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: دن میں روزہ رکھنا، رات میں شب بیداری کرنا اور بقیہ اوقات میں دوڑ بھاگ کی تھکاوٹیں !! جب علی رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: چونکہ سفر آخرت بہت طویل ہے، اس لیے رات میں بھی اسے طے کرنے کی ضرورت ہے۔[1]
امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ تقوی، مراقبت و خشیت الٰہی پر لوگوں کو ابھارتے رہتے تھے، آپ نے فرمایا: اے لوگو! اس ہستی سے ڈرو کہ جس سے اگر کوئی بات زبان سے کہو تو سنے اور اگر دل میں چھپاؤ تو جانے، اس موت سے عمل میں سبقت کرو جس سے اگر تم فرار اختیار کرو تو دوڑا کر دبوچ لے اور اگر اپنی منزل پر رہو تو بھی پکڑ لے۔[2]
علی رضی اللہ عنہ موقع بہ موقع اپنے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کرتے رہتے، چنانچہ ایک مرتبہ اشعث بن قیس سے فرمایا: تمھاری تقدیر میں جو ہے، وہی ہوگا۔ اگر تم صبر کرلیتے ہو تو اجر ملے گا، اور اگر جزع فزع کرتے ہو تو گناہ گار ہو۔[3] اور فرمایا: ایمان میں صبر کی وہی حیثیت ہے جو سر کی حیثیت جسم میں ہے، اگر سر کاٹ دیاجائے تو جسم کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، پھر آپ نے بلند آواز سے کہا: سن لو! جس کے پاس صبر کا ملکہ نہیں اس کے پاس ایمان نہیں ۔[4]
اور فرمایا: صبر ایک سواری ہے جو کبھی درماندہ نہیں ہوتی، اللہ کے دین میں صبر کا بڑا اونچا مقام ہے۔ متعدد آیات میں اللہ نے اس کی اہمیت جتائی ہے، فرمایا:
﴿ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر:۱۰)
’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘
اللہ سے دعا و مناجات:
اللہ سے دعا و مناجات کا دروازہ نہایت کشادہ ہے، جب بندے پر وہ دروازہ کھل جاتا ہے تو اس پر خیرو برکت
[1] لطائف المعارف ؍ ابن رجب، اور التحمس لقیام اللیل ؍ محمد صالح (۹۳)۔
[2] أدب الدنیا و الدین ص (۱۲۳) فرائد الکلام ص (۳۶۹)۔
[3] ایضًا، ص (۸ ۲۷) ایضًا،ص (۳۷۱)۔
[4] عدۃ الصابرین و ذخیرۃ الشاکرین ؍ ابن القیم ص (۱۵۳)۔