کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 597
’’سخاوت تو وہ ہے جو بن مانگے دیا جائے اور مانگنے کے بعد جو نوازش ہوئی وہ تو شرم یا احسان کی وجہ سے ہے۔‘‘[1] اللہ سے حیا: حیا، ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے، وہ انسان کو حسن سلوک اور اعمال ثواب پر ابھارتی ہے اور گناہوں سے روکتی ہے۔[2] اسی لیے حیا کا شمار ان اعلیٰ اخلاق میں ہوا ہے جن پر قرآن نے خصوصی توجہ دی ہے۔[3] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن یوں گویا ہوا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ﴾ (الاحزاب:۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں مت داخل ہو مگر یہ کہ تمھیں کھانے کی طرف اجازت دی جائے، اس حال میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرنے والے نہ ہو اور لیکن جب تمھیں بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور نہ (بیٹھے رہو) اس حال میں کہ باتمیں دل لگانے والے ہو۔ بے شک یہ بات ہمیشہ سے نبی کو تکلیف دیتی ہے، تو وہ تم سے شرم کرتا ہے اور اللہ حق سے شرم نہیں کرتا۔‘‘ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے کہ دعوت پرآئے ہوئے مہمان کھانے سے فارغ ہو کر واپس چلے جائیں ، لیکن آپ شدت حیا اور کثرت لحاظ و مروت میں ان سے برجستہ اپنی خواہش کا اظہار نہیں کرپاتے۔[4] ایسا کیوں نہ ہو جب کہ آپ کی شان حیا یہ تھی کہ اپنی گھونگھٹ میں چھپی ہوئی دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے۔[5] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِیْ إِلَّا بِخَیْرٍ۔))[6]… ’’حیا تو صرف خیر ہی لاتی ہے۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت سرتاپا حیا میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ اس اخلاق حسنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سوچ کر مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ کہیں گناہ میرے عفو و درگزر پر یا جہالت میری بردباری پر، یا بے پردگی میری پردہ پوشی پر، یا محتاجی میری سخاوت پر بھاری نہ پڑجائے۔[7]
[1] تاریخ الخلفاء ؍ السیوطی ص (۲۰۴)۔ [2] شرح صحیح مسلم ؍ النووی (۳؍۵)۔ [3] أخلاق القرآن الکریم (۱؍۴۷۸)۔ [4] أخلاق النبی فی القرآن و السنۃ (۱؍۴۷۸)۔ [5] صحیح مسلم حدیث نمبر (۲۳۲۰)۔ [6] صحیح مسلم حدیث نمبر (۳۷)۔ [7] تاریخ دمشق (۴۲؍۵۱۷) بحوالہ: التاریخ الإسلامی؍ الحمیدی (۲۰؍۲۷۴)۔