کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 596
باوجود ہم آپ سے اس قدر مرعوب تھے کہ آپ سے بات نہیں کرسکتے تھے۔[1] آپ نے تواضع کی حقیقت و افادیت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
((تَوَاضِعُ الْمَرْئِ یُکْرِمُہُ۔))[2]
’’یعنی آدمی کی تواضع پسندی اسے عزت عطا کرتی ہے۔‘‘
فیاضی و احسان:
امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ فیاضی و احسان جیسی عظیم قرآنی صفت کے سرتاپا مظہر تھے، قرآن نے ایسے اہل جود و کرم کی پرزور انداز میں قابل قدر تعریف کی ہے۔ شروع قرآن میں بسم اللہ کے بعد وسری سورت کا آغاز ہی اسی سے ہوا:
﴿ الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (البقرۃ:۱-۵)
’’الٓمٓ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں ، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں ۔ اور وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے بڑی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں ۔‘‘
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اخلاق حسنہ کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ آپ مہمان نواز تھے، اس کی آمد پر خوش ہوتے تھے، اپنے ایسے بھائیوں کو ڈھونڈ کر لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے، چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں :
’’ایک ہفتہ سے میرے پاس کوئی مہمان نہیں آیا، مجھے خدشہ لگا ہے کہ کہیں اللہ کو میری رسوائی تو نہیں مقصود ہے۔‘‘[3]
اور فرمایا:
’’میں اپنے کسی مسلمان بھائی کو اللہ کے راستے میں بیس درہم دے دوں یہ میرے نزدیک اس بات سے بہتر ہے کہ کئی مسکینوں پر سو درہم خرچ کروں ۔‘‘[4]
ایک مرتبہ آپ سے سخاوت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
[1] الاستیعاب (۳؍۱۱۰۸)۔
[2] منہج أمیر المومنین علی فی الدعوۃ ص (۵۲۳)۔
[3] فرائد الکلام ص (۴۰۲) موعظۃ المؤمنین (۲؍۲۵۲)۔
[4] موعظۃ المؤمنین (۱؍۱۳۹)۔