کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 595
سے پیش آئیے اوران کے ساتھ نرمی کیجیے۔[1] چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخلاق فاضلہ کو کماحقہ ادا کیا اور آپ کی گھریلو، معاشرتی اور ذاتی زندگی میں ہر وقت اور ہر جگہ اس کے اثرات دیکھنے میں آئے، آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ
اللہ کے لیے اور مومنوں کے لیے تواضع سے خالی نہ رہا۔[2] بہرحال علی رضی اللہ عنہ اس قرآنی تربیت اور نبوی رہنمائی سے اس درجہ فیض یاب ہوئے کہ آپ کی بے مثال شخصیت کے رگ و ریشے یہی صفت گردش کرنے لگی، اس سلسلے کی چند مواقف کو یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔
میں ہی وہ شخص ہوں جس نے دنیا کو ذلیل کیا:
صالح بن ابوالاسود اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا کہ اس نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ ایک گدھے پر سوار ہوئے اور دونوں پاؤں ایک طرف لٹکاکر بیٹھ گئے، پھر کہا: میں ہی وہ شخص ہوں جس نے دنیا کو ذلیل کیا۔[3]
ابوالعیال[4] خود سامان اٹھانے کا زیادہ حق دار ہے:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ایک درہم کی کھجوریں خریدیں اور اسے چادر میں رکھ کر لے چلے، لوگ کہنے لگے: اے امیر المومنین لائیے ہم لے چلیں ، آپ نے فرمایا: نہیں ۔ ابوالعیال اسے خود لے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔[5]
اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ متواضعانہ برتاؤ:
عباس رضی اللہ عنہ کے غلام صہیب کا بیان ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے چچا جان! آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں ۔[6]
آئیے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ضرار الصدائی کے توصیفی کلمات پر غور کریں وہ فرماتے ہیں : آپ کو وہ لباس پسند تھا جو چھوٹا ہوتا اور وہ کھانا پسند تھا جو موٹا ہوتا، وہ ہم میں عام فرد کی طرح رہتے تھے، اگر ہم ان سے کچھ پوچھتے تو آپ ہمیں بتاتے، اگر کچھ مانگتے تو دیتے اور اللہ کی قسم! ہمیں اپنے قریب رکھنے اور خود ہمارے قریب ہونے کے
[1] روح المعانی ؍ آلوسی (۵؍۸۰)۔
[2] أخلاق النبی فی القرآن والسنۃ (۱؍۴۵۹)۔
[3] البدایۃ والنہایۃ (۸؍۵)۔
[4] بچوں کا باپ۔
[5] الزہد ؍الإمام أحمد ص (۱۳۳)۔
[6] أصحاب الرسول (۱؍۲۲۴) سیر اعلام النبلاء ؍ الذہبی (۲؍۹۴) اس کی سند صحیح ہے۔ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ذہبی کہتے ہیں کہ ’’اس کی سند حسن ہے صہیب کو میں نہیں جانتا۔‘‘ تو جب قصہ کا اصل راوی ہی غیر معروف ہے تو اس کی سند حسن کیسے ہوگئی لہٰذا امام ذہبی کا اس مجہول شخص کے ہوتے ہوئے اس کی سند کو حسن قرار دینا تعجب خیز ہے اور اسی طرح مولف کا اس کی سند کو صحیح قرار دینا مزید تعجب خیز ہے۔یہ روایت ناقابل اعتبار ہے ، اس لیے اس سے اہل بدعت کا قدم بوسی پر استدلال صحیح نہیں ہے۔ (مترجم)